مرسی کی موت کی سزا :احتجاج میں 3 ججوں کا قتل

مصر کے معزول صدر محمد مرسی اور مسلم برادر ہڈ کے105 ممبروں کو سنیچر کو قاہرہ کی ایک عدالت نے موت کی سزا سنائی ہے۔ انہیں سال 2011ء میں دیش میں بھڑکی بغاوت کے دوران جیل توڑنے کے واقعات میں یہ سزا سنائی گئی ہے۔ قاہرہ کی پولیس اکاڈمی عدالت میں سزا سنائے جانے کے وقت 63 سالہ محمد مرسی پنجرہ نما کٹہرے میں موجود تھے۔ انہوں نے مٹھیاں تان کر فیصلے کے خلاف احتجاج ظاہرکیا۔ مصر کے قانون کے تحت موت کی سزا جیسے معاملوں پر دیش کے بڑے مذہبی مفتی اعظم سے رائے لی جاتی ہے۔ مرسی و دیگر کو سزا پر مفتی کی رائے لی جائے گی ۔ اس سے پہلے سزا پر عمل نہیں ہوگا۔ حالانکہ مفتی کی رائے کی پابندی نہیں ہے۔ عدالت اس معاملے میں قطعی فیصلہ 2 جون کو سنائے گی۔ مرسی اور دیگر 128 پر الزام تھا کہ انہوں نے جنوری2011 میں اس وقت کے صدر حسنی مبارک کے خلاف بغاوت کے دوران جیل تورنے کی سازش رچی تھی۔ اس دوران20 ہزار سے زیادہ قیدی جیل سے بھاگ گئے تھے۔ ان الزامات کے تحت موت کی سزا سننے والوں میں مسلم برادر ہڈ کی چیف محمد حادی بھی شامل ہیں۔ ان سبھی پر مصر کو کمزر کرنے کے لئے فلسطین کے اسلامی کٹر پسند تنظیم حماس، ایران کی ریولوشنری گارڈ اور لبنان کے حزب اللہ جیسی غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ سانٹھ گانٹھ کرنے کا الزام ہے۔ اس معاملے میں مرسی بھی ملزم ہے اگر عدالت2 جون کو اپنے ابتدائی فیصلے پر مہر لگادیتی ہے یا پھر مرسی کی مجوزہ اپیل خارج کردیتی ہے تو مصر کی تاریخ میں موت کی سزا پانے والے مرسی پہلے صدر ہوں گے۔ مرسی کو موت کی سزا سنائے جانے کے کچھ گھنٹوں بعد ہی دیش کے شورش زدہ صوبہ شینائی میں تین ججوں کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ یہ قتل شینائی الارش میں ہوا۔ حملے میں تین دیگر بری طرح زخمی ہوگئے۔ افسران نے بتایا کہ حملہ اسلامک اسٹیٹ (داعش) کے حمایتی آتنکیوں نے کیا۔ انہوں نے ایک بس کو نشانہ بنایا جس پر جج سوار تھے۔ حملے میں بس ڈرائیور بھی مارا گیا۔ مرسی کو صحیح ٹھہرانے والے بہت سے لوگوں میں شینائی صوبے کے باغی بھی شامل ہیں۔ اس لئے اس حملے کے تار اس سزا سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے۔ واقعہ کے کچھ گھنٹے پہلے ہی دیش کے پہلے معزول صدر رہے محمد مرسی کو عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی۔ جون 2012ء میں صدر مرسی نے کرسی سنبھالی تھی۔ وہ پہلے صدر تھے جن کا انتخاب جمہوری طریقے سے ہوا تھا۔ جولائی 2013 میں احتجاجی مظاہروں کے بعد فوج نے انہیں معزول کردیا اور ان پرتنظیم مسلم برادر ہڈ کی حمایت کا بھی الزام لگا تھا۔ مصر کے اندر سیاسی اتھل پتھل انتہا پر ہے اگر اتنی بڑی تعداد میں ملزمان کی موت کی سزا پر عمل ہوتا ہے تو یہ اس دیش کے لئے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک نئی بات ہوگی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟