42 سال بعد ارونا شان باغ کو ملی سکون کی نیند

40برس تک نزعے کی حالت میں رہنے کے بعد دنیا چھوڑدینے والی ممبئی کے کے ۔ایم ہسپتال کی سابق نرس ارونا شان باغ کو ایسی اذیت جھیلنی پڑی جس نے ہمارے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ موت تو ارونا شان باغ کی27 نومبر1973ء میں ہی ہوگئی تھی جس رات بدفعلی کے بعد وہ نزعے میں چلی گئی تھی اب تو قانونی موت ہوئی ہے۔ 68ویں جنم دن سے13 دن پہلے 42 سال کے انتہائی درد جھیلنے کے بعد اسے سکون کی نیند آگئی۔ پیر کی صبح ارونا کی موت کے بعد یہ لفظ تھے اس کی دوست پنکی ویرانی کے۔ارونا کے۔ ای۔ ایم ہسپتال میں نرس تھی، یہیں کے وارڈ بوائے نے ان سے بدفعلی کی کوشش کی تھی۔ ارونا کا کتا باندھنے والی چین سے گلا دبا دیا تھا اس سے ارونا کے دماغ میں خون کی سپلائی رک گئی اور وہ کوما میں چلی گئی۔ پھر وہ کبھی نہیں اٹھی۔ نزعے سے باہر نہیں نکل سکی۔ ارونا کے خاندان نے بھی منہ موڑ لیا لیکن موت کے بعد ارونا کے دو بھانجے ہسپتال آئے لیکن نرسوں نے کہا ارونا ہماری بیٹی تھی ،انتم سنسکار ہم ہی کریں گے، یہ پریوار آج کہاں سے آگیا؟ دہلی میں ہوئے نربھیا کانڈ کے بعد نہ صرف آبروریزی کی تشریح سخت کی گئی ہے بلکہ ایسے معاملوں میں سزا کی دفعات بھی سخت کی گئیں۔ مگر ارونا کے ساتھ جنسی تشدد کرنے والے سوہن لال پر جان لیوا حملہ اور ڈکیتی کے معاملے تو چلے اور اسے سزا بھی ہوئی لیکن اس پر آبروریزی یا جنسی تشدد کا معاملہ نہیں چلایا گیا۔ شاید اس وقت کا سماجی تانا بانا اور دباؤ میں ہسپتال انتظامیہ کو یہ مناسب لگا تھا مگر اس حادثے نے ارونا کے وجود کو ختم ہی کردیا اور اگر کے ۔ای ۔ ایم ہسپتال کے ان کے ساتھی اور نرس ان کی سیوا نہیں کرتی تو وہ اتنے لمبے عرصے تک زندہ نہیں رہ پاتی۔ ارونا شان باغ 42 سالوں سے کنگ ایڈورڈ میموریل(کے ای ایم) ہسپتال کے گراؤنڈ فلور پر وارڈ نمبر چار سے جڑے کمرے میں بھرتی تھیں۔ یہ کمرہ ہی ان کا گھر تھا اور ہسپتال کا اسٹاف پریوار۔ اس لمبے عرصے کے دوران وہ کبھی نہیں بولیں لیکن ان کی خاموشی دیش میں خواہشی موت پر بحث اور پھر قانون بنے میں سب سے طاقتور ہتھیار بنی۔ صحافی پنکی ویرانی نے ارونا کو خواہشی موت دینے کے لئے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی تھی۔ ارونا کے ساتھ دردناک حادثے کے بعد قریب38 برسوں بعد24 جنوری2011ء کو کورٹ نے عرضی منظور کرتے ہوئے تین ڈاکٹروں کا پینل بنایا تھا۔ بعد میں 7 مارچ 2011ء کو یہ عرضی خارج کردی گئی۔ عدالت نے کہا کہ پوری طرح بے جان حالت میں پڑے مریضوں کو زندگی دینے والے آلات کو ہٹا کر پیسیو (خواہشی موت) دی جاسکتی ہے۔ اس عمل کو تبھی جائز مانا جائے گا جب ہائی کورٹ کی نگرانی میں ہو۔ ارونا بھارت میں خواہشی موت کے حق سے جڑی بحث کی علامت بن گئیں۔ ارونا کی طرح سابق وزیر اور کانگریسی لیڈر پریہ رنجن داس منشی اور بھاجپا کے سابق سینئر لیڈر جسونت سنگھ بھی نزعے میں ہیں۔ منشی اکتوبر2008ء سے ہارٹ اٹیک کے بعد سے نزعے میں ہیں جبکہ 76 سالہ جسونت سنگھ کو 8 اگست 2014ء کو سر میں چوٹ لگی تھی اور وہ اب نزعے میں ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟