چین میں مسجدوں سے ہٹ رہی ہیں گنبد اور مناریں !
چین میں مغربی صوبے کے شنگجن شہر میں واقع بڑی مسجد کے گنبد اور منارے کو بھی ہٹا دیا گیا چین کی کمیونسٹ سرکار اسے اور زیادہ چینی شکل دینا چاہتی ہے سرکار کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا ہے تاکہ مسجد پر مشرقی وسطیٰ کا مبینہ اسلامی انداز نہ دکھائی دے اسے زیادہ چائنیز لگنا چاہئے چین نے اپنے دیش کی مساجد سے اسلامی کلچر کی علامتوں جیسے گنبد اور مناروں کو 1990کی دھائی میں ہٹانا شروع کر دیا تھا شروعات میں مسجدوں کے پاس بسی آبادی کو ہٹا گیا پھر کہا گیا تھا کہ وہ کلچر کو بدلنا شروع کیا گیا ہے صدر شی جنگپنگ کے دورے سے یہ کاروائی اور بڑھی ہے اسے تہذیبی اتحاد کا نام دیا گیا ہے اس کے تحت دیگر مذاہب کو ماننے والے اور معاشرے والے فرقوں سے جڑی علامتوں کو ہٹانے کا کام شروع کیا گیا ۔ چین ایسی کاروائی کیوں کر رہا ہے چین کو اپنے مغربی خطے میں مسلمانوں خاص کر ایوگر مسلموں سے جب تک مذاہمت جھیلنی پڑ رہی ہے چین نے مذہبی پابندیوں کو اور سخت کر دیا ہے جس سے سرکار کو کوئی چیلینج نہ مل سکے ۔ پچھلے دو برسوں میں چین میں کئی مسلم مذہبی اداروںکو بند کر اماموں کو گرفتار کیا ہے تبت کے ساتھ لگے منگولیا علاقے کے مدرسوں اب صرف چین کی زبان میں ہی پڑھائی ہوتی ہے 3سوسال سے شنگ علاقے میں مسلمان رہ رہے ہیں ان کی آبادی تقریباً ایک کروڑ ہے چین نے سوویت ماڈل پر اپنے دیش میں رہنے والے مذہبی اور مختلف زبان بولنے والے اقلیتوں کو پچاس طبقوں میں باٹا ہے ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں