سی بی آئی کی ساکھ کا سوال!

سی بی آئی ڈائرکٹر سبودھ کمار جیسوال نے سپریم کورٹ میں جو حلف نامہ دائر کیا ہے ۔اس سے نہ صرف اس جانچ ایجنسی کے کام کاج کی موجودہ کارکردگی ظاہر ہوتی ہے بلکہ ان اڑچنوں کا بھی پتہ چلتا ہے جن کا اسے سامنا کرنا پڑتا ہے ۔بتا دیں کہ ایک معاملے کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس این کے کول جسٹس این سن پریس کی بنچ نے تین ستمبر کو کہا تھا کہ سی بی آئی چیف ایجنسی کے کام کاج کی پوری تفصیل رکھیں تاکہ یہ اندازہ مل سکے کہ پچھلے دس برسوں کے دوران مقدمہ درج کرنے اور انہیں سلجھانے کے معاملے میں ایجنسی کتنی کامیاب رہی ہے ۔حلف نامہ میں سی بی آئی نے دعویٰ کیا ہے کہ مجرموں کے خلاف فوجداری کے معاملوں میں 65 سے 70 فیصد کیس سزا ملی ہے ۔یہ شرح اگلے سال تک 75 فیصد ہو سکتی ہے ۔زیادہ پختگی سے کہا جائے تو 2011 سے 2014 تک سزا ریٹ 67 فیصدی سے 69 فیصدی تک پہونچ سکا ۔اس کے بعد 2015 میں اچانک یہ گر کر 65.1 فیصد ی پر اگیا جو آہستہ آہستہ بڑھتے ہوئے 2020 میں 69.8 فیصدی تک آگیا ۔سال 2015 میں آئی اچانک گراوٹ کی وجہ صاف نہیں ہو پائی لیکن زیادہ اہم ترین بات یہ ہے کہ سی بی آئی چیف سے اگلے سال 75 فیصدی تک پہوچانے کا ارادہ رکھتے ہیں اس نے کہا پرانی گائڈ لائنس کے جگہ پر نئی گائڈ لائنس جاری کی گئی ہیں ۔جس سے سی بی آئی کے لئے بالا عدالتوں میں اپیل دائر کرنے و ان پر نظر رکھنے سے متعلق موضوعات پر نگرانی پر نوٹ دیا گیا ۔سی بی آئی نے کہا فی الحال 8 ریاستوں جس میں راجستھان ،چھتیس گڑھ اور میوزرم وغیرہ نے دہلی اسپیشل پولیس ایکٹ کی دفع6 کے تحت سی بی آی کو دی گئی عام منظوری واپس لے لی ہے جس سے معاملہ شرح ان ریاستوں سے رضامندی حاصل کرنے میں وقت لگ جاتا ہے ۔اور یہ فوری جانچ کے راستے میں رکاوٹ ہے ۔سپریم کورٹ نے وکیل محمد الطاف اور شیخ مبارک کے معاملے میں جموں کشمیر ہائی کورٹ کے حکم کو چیلنج کرنے والی اپیل پر سماعت کررہی ہے ۔یہ اپیل 542 دن کی تاخیر سے دائر کی گئی تھی ۔بہر حال سی بی آئی کا سزا شرح کے موجودہ اعداد شمار بھی کم نہیں مانے جاسکتے ۔خاص کر جب نینشل کرائم ریکارڈ بیورو کی تفصیلات کے مطابق آئی پی سی کے تحت درج معاملوں میں سزا ریٹ 2020 میں 69.2 فیصدی رہے ہیں ۔ماہرین کے مطابق یہ صاف نہیں ہے کہ حلف نامہ میں سزا شرح طے کرنے کی بنیاد بالا عدالتوں کے آخری فیصلے کو بنایا گیا ہے یا نچلی عدالتوں کے ابتدائی فیصلوں کو ۔حلف نامہ میں سی بی آئی نے عدالتوں سے اسٹے آرڈر جاری کئے جانے اور کئی ریاستوں کے ذریعے سی بی آئی کو جانچ کرنے کی عام اجازت واپس لئے جانے جیسی اڑچنوں کا بھی ذکر ہے ۔جو کچھ حد تک جائز بھی ہے ۔سی بی آئی عام طور پر الزام لگاتی ہے کہ موجودہ حکومت کے احکامات پر کام کرتی ہے ۔ایجنسی کو یہاں تک کہا گیا ہے کہ وہ پنجرے میں بند طوطے کی طرح ہے جس طرح سے کئی ہائی پروفائل مقدموں میں سرکار کے اشارے پر یہ ایجنسی اپنا کام کا رخ طے کرتی ہے وہ اس کی ساکھ بننے کی راہ میں سب سے بڑا روڑا ہے ۔اکثر مانگ کی جاتی ہے کہ اسے منصفانہ بنانا چاہے لیکن تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی بھی سرکار چاہے کسی پارٹی کی ہو یہ کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟