تین دھائی سے کانگریس کے چانکیہ رہے احمد پٹیل کا جانا!

کانگریس کو ایک ہفتے میں دو بڑے جھٹکے لگ گئے پہلا ترون گوگوئی کے جانے سے اور اس کے فوراً بعد سینئر لیڈر احمد پٹیل کے جانے سے ۔احمد پٹیل کے بدھ کے روز انتقال ہوگیا وہ 71برس کے تھے اور کچھ ہفتوں سے کورونا سے متا ثر تھے اور میدانتہ ہسپتا ل میں زیر علاج تھے پٹیل کے بیٹے فیصل پٹیل اور لڑکی ممتاز صدیقی نے ٹیوٹر پر ایک بیان جاری کر بتایا کہ والد نے بدھ کو صبح سویرے 3بج کر 30منٹ پر آخری سانس لی دکھ کے ساتھ اپنے والد احمد پٹیل کی تکلیف دہ اور اچانک موت کا اعلان کر رہے ہیں ۔ دونوں بہن بھائی کا کہنا تھا تقریبا ً ایک مہینہ پہلے ان کے والد کورونا انفیکشن کے شکار ہوگئے تھے ۔ جس وجہ سے ان کے کئی اعضاءنے کا م کرنا بند کردیا تھا ان کی موت پر وزیر اعظیم اور دیگر سیاسی لیڈروں نے اظہار تعزیت کیا ہے وہیں ان کی اپنی پارٹی کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے کہا سری پٹیل کے جانے سے میں نے ایک ایسا ساتھی خودیا ہے جن کی پوری زندگی کانگریس پارٹی کے لئے وقف تھی۔انہوں نے ایمانداری اور لگن اور فرض کے طئیں عظم رکھا اور مدد کے لئے ہمیشہ کھڑے رہتے تھے اور ان میں نرم گوئی اور سادگی تھی جو دوسروں سے الگ تھیں ۔ میں نے ایسا کامریڈ ایماندار ساتھی اور دوست کھودیا جن کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا میں ان کے انتقال پر دکھ ظاہر کرتی ہوں اور ان کے خاندان کے تئیں اظہار ہمدردی اور دکھ کی گھڑی میں صبر سے کام لینے کی اپیل کرتی ہوں ۔ احمد پٹیل صرف کانگریس کے خزانچی ہی نہیں تھے بلکہ ان کوپارٹی کا سنکٹ موچک اور پارٹی کا چانکیہ مانا جاتا تھا یہی وجہ ہے کہ سابق وزیر اعظم اند ر گاندھی سے لیکر سونیا گاندی تک کا ان پر پورا بھروسہ تھا ۔ پارٹی میں آئے بڑے سنکٹ کے وقت خود اسے ٹالنے یا سلجھانے میں ہمیشہ اہم رول نبھا تے رہے منموہن سنگھ سرکار میں بھی انہیں دو مرتبہ وزیر کا عہدہ آفر کیا گیا لیکن انہوں نے سرکارمیں رہنے کے بجائے پارٹی کے لئے کام کرنا بہتر سمجھا احمد پٹیل قریب تین دھائی تک کانگریس کے لئے بڑے اور اہم حکمت عملی ساز بنے رہے مئی 1991میں سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کی موت کے بعد پی وی نرسمہا راو¿ سرکار کے دوران بھی کئی اہم موقعوں پر پٹیل کی صلاح کام آئی نرسمہا راو¿ کے پانچ سالہ اقلیت سرکار چلانے میں پٹیل کے جاتی تعلقات کام آئے لیکن پٹیل نے ہمیشہ نازک موقعوں پر پردے کے پیچھے سے انہوں نے کام کرنا بہتر سمجھا وہ پہلی بار اس وقت سرخیوں میں آئے تھے جب 1985میں راجیو گاندھی نے انہیں اور آسکر فرنانڈس اور ارون سنگھ کے ساتھ اپنا پارلیمنٹری سیکریٹری بنایا تھا تب ان کو امر اکبر انتھونی کہا جاتا تھا ۔ احمد پٹیل کے دوست اور حریف اور ساتھی انہیں احمد بھائی کہہ کر پکاراکرتے تھے ۔ لیکن وہ ہمیشہ اقتدار اور پبلیسٹی سے خود کو دور رکھنا ہی پسند کرتے تھے ۔ سونیا گاندھی اور منموہن سنگھ اور پرنب مخرجی کے بعد یو پی اے 2004سے 2014تک کے دورے حکومت میں احمد پٹیل طاقت ور لیڈر تھے ۔ مہاراشٹر میں مہا وکاش ادھاڑی کی تعمیل میں انہوں نے اہم رول نبھایااور کٹر حریف شیو شینا کو بھی ساتھ لانے میں کامیا ب رہے اب یہ کوئی تعجب کی بات نہیں رہی کہ اب اگست 2017میں احمد پٹیل کانگریس کی طرف پانچویں بار راجیہ سبھا بھیجے جانا اپنے آپ میں انوکھا قدم تھا ۔ کیونکہ کانگریس نے اس سے پہلے کسی بھی نیتا کو پانچ مرتبہ اس سے پہلے کبھی راجیہ سبھا نہیں بھیجا تھا اس کولیکر وہ زیادہ اتاولے نہیں تھے لیکن سونیا گاندھی نے انہیں اس کے لئے بنایا اور کہا تھا وہ اکیلے وہی ہیں جو امت شاہ و پوری بی جے پی کا مقابلہ کرنے میں اہل ہے احمد پٹیل جانے سے کانگریس کو نقصان کو بھاری ہوا ہی ہے اور پارٹی کے تما م حریفوں کو ایسے چانکیہ کے جانے سے بھاری نقصان ہوا ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!