گھریلوتشدد اور لاک ڈاو ¿ن !

یہ بہت دکھ اور پریشانی کی بات ہے کورونا کے بعد لاک ڈاو ¿ن کے دوران گھر میں مار پیٹ کی شکایتوںمیں اضافہ ہواہے۔ایک رپورٹ کے مطابق 23مارچ سے لاگو لا ک ڈاو ¿ن نافذ ہونے سے لیکر ۲اپریل تک نیشنل وومن کمیشن کو دو سے 56شکایتیں گھریلو ٹارچر ہونے کی ملی ہیں ۔ان مین سے 69شکایتیں گھریلو جھگڑوں کی ہیں ۔جو عورتوں نے کیے ۔کمیشن کا دعویٰ ہے جب سے کورونا کا قہر بڑھا ہے شکایتیں دگنی ہوگئی ہیں ۔حالات اس لیے بھی سنگین ہیں کہ شکایتیں دگنی ہو گئی ہیں ،لیکن اس طرف کوئی دھیان نہیں دے رہا ہے۔لیکن اس کے پیچھے کی وجہ یہ بھی ہے کہ پولیس کورونالاک ڈاو ¿ن کو نافذکرانے اور آگے بھاگے ہوئے مریضوں کے پیچھے لگی ہوئی ہے ۔ایک افسر کے مطابق اگر شکایت پر کاروائی کی جاتی ہے تو معاملہ اورپیچیدہ ہو جائےگا ۔کیونکہ پہلے اسے الٹا یہ دیکھنا ہوگا کہ ملزم کو کورونا تو نہیں ہے ۔اس لیے معاملے کو توجہ نہیں دی جارہی ہے اور پھر ان واقعات میں ملوث لوگوں یاعورتوں کوجیل میں رکھنا مشکل ہے اورپھر عدالتیں بند ہیں ۔وہیں پھر جیلوںمیںسات سے چھ سال کی سزاوالے اورپچاس سال کی عمر سے زیادہ کے قیدیوں کو چھوڑنے پرغور ہو رہا ہے ۔اب بتایے کہ تین سال سے کم کی سزا والے گھریلوں ملزموں کو کیسے سزادی جائے ۔مسئلہ یہ ہے کہ لاک ڈاو ¿ن کے بعد گھریلو ماریپٹ کا ملزم شوہر یا رشتہ دار اسی گھر میں ایک ساتھ رہنے کو مجبور ہے ۔ایک طرف آفس اور کام دھندے بند پڑے ہیں اس لیے وہ کام پر نہیں جا پارہے ہیں اور چوبیس گھنٹے ساتوں دن ایک دوسرے کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں جرام قانون کی ماہر ایچ پی شرما کے مطابق گھریلو ماریپیٹ کا معاملہ ایک جرم ہے اس میں کوئی وقت کی حدنہیں ہے ۔جب بھی حالات ٹھیک ہوں گے ۔تب گھریلو مارپیٹ قانون کی دفع 27کے تحت مقدمہ درج کیا جاسکتا ہے ۔پچھلے دنوں ڈبلیو ایچ اوکے ڈائرکٹر نے کہا تھا کہ کورونا کے سبب یوروپ میں گھریلو تشدد کے معاملوںمیں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے ۔سماج میں باقاعدہ گھریلو مارپیٹ کی شکار عورتوں کے لیے ہوٹلوں میں انتظام کررکھے ہیں ۔بتادیں دا چائلڈانڈیاہیلپ لائن نمبر پر پچھلے گیارہ دنوںمیں بارہ ہزار کال آئیں جن میں بچوں کو مارپیٹ اور اذیت سے بچانے کی درخواست کی گئی ۔یہ مایوس کن حالات اشارہ کرتے ہیں کہ لاک ڈاو ¿ن کے سبب بہت سے بچے بھی گھر میں عد م تحفظ میں پھنسے ہوئے ہیں ۔چائلڈ لائن انڈیا کی ڈپٹی ڈائرکٹر ہرلن والیا نے کہا دیش کے مختلف علاقوں سے 20سے 31مارچ کے درمیان چائلڈلائن 298پر تین لاکھ سات ہزار فون آئے جوزیادہ تر بچوں کی شکایتوں سے جڑے ہیں ۔جس میں تشدد اور اذیت سے بچاو ¿ کی مانگ کی گئی تھی ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!