قرض چکانے کےلئے پاکستان پی او کے کا حصہ چین کو دے گا

ایک غیر ملکی انگریزی اخبار دی یورپین ٹائمس کی ہندوستان کے لئے باعث تشویش رپورٹ آئی ہے اس کے مطابق چین کے شن زیانگ صبح کو گوادر بندرگاہ سے جوڑنے والے چین پاکستان اکنامک کوریڈور پروجکٹ کے قرض کا بوجھ پاکستانی معیشت کے لے بھاری ثابت ہونے لگا ہے ۔ماہرین پہلے ہی سی پی ای سی پروجکٹ کو پاکستان کے لئے قرض کے اندھے دھویں کی طرح تشبیہ دے چکے ہیں اس پروجکٹ کی تعمیر کی ساری ذمہ داری چینی کمپنیوں کو دے دی گئی ہے ۔جو چینی ٹرینگ مزدوروں کو ہی لا کر کام کروا رہی ہے اور تعمیر کا سامان بھی چین سے ہی آرہا ہے ۔جس کا بوجھ بھی پاکستانی معیشت کو اُٹھانا پڑ رہا ہے ۔دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو اس پروجکٹ کے چلتے پاکستان میں مقامی سطح پر نہ کے برابر روزگار پیدا ہوئے ہیں اور نہ کے برابر ہی وہاں کی معیشت کو سامان خریدنے بیچنے کی رفتار ملی ہے ۔ماہرین نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ اپنی مسلسل گرتی معیشت سے لڑ رہے پاکستان اس قرض کو اتارنے کے لے اپنے قبضے والے کشمیر (پی او کے )کا کچھ حصہ چین کو سونپ سکتا ہے ۔اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی طرف سے یہ قدم اُٹھائے جانے پر چین کو بھارت کی طرف سے سخت مقابلہ کئے جانے کا ڈر ہے ۔جو پہلے ہی سی پی ای سی کو پی او کے کے گلگت بلدستان خطہ سے گزرنے کو اپنے ملک کی سرداری کی خلاف ورزی بتاتے ہوئے احتجاج ظاہر کر چکا ہے ۔بھارت کا دعوی ہے کہ یہ علاقہ ان کے متحد جموں و کشمیر ریاست کا حصہ ہے قریب 60ارب ڈالر کے سی پی ای سی پروجکٹ کے لے پاکستان دسمبر 2019تک چین سے قریب 21.7ارب ڈالر کا قرض لے چکا تھا ۔ان میں سے 15ارب ڈالر کا قرض چین کی سرکار نے اور باقی 6.7ارب ڈالر کا قرض وہاں کے مالیاتی اداروں سے لیا گیا تھا ۔پاکستان کے سامنے اس قرض کو واپس لوٹانا اب بڑا مسئلہ بن گیا ہے ۔چونکہ معیشت کی پوری طرح سے تباہ ہو جانے سے اس کے پاس محض 11.5ارب ڈالر کی ہی غیر ملکی کرنسی کا ذخیرہ ہے ۔بھارت پورے پی او کے کو اپنا حصہ مانتا ہے ا ور یہ بات بھارت کی پارلیمنٹ میں بھی منظور ہو چکی ہے ۔اب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اگر پاکستان نے چین کو پی او کے کا کچھ حصہ قرض چکانے کے لئے دے دیا تو بھارت کے پاس کیا متبادل بچے گا؟

(انل نریندر) 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟