یکم فروری کو پھانسی پر اب بھی بے یقینی برقرار

تہاڑ جیل میں بند نربھیا معاملے کے قصور واروں کی پھانسی کی اگلی تاریخ بھلے ہی یکم فروری طے کردی گئی ہو لیکن ابھی بھی یہ پکہ نہیں کہ اس دن ان کو پھانسی دی جائے گی بھی یا نہیں ؟اگر ان میں سے دو قصورواروں میں سے کسی بھی ایک قیدی نے اپنی اپیل ڈال دی تو پھانسی ٹالنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہوگا ۔قانون و جیل کے کام کاج کی مانیں تو جیل انتظامیہ کے لاچار رویہ کے سبب بھی معاملہ میں دیری ہوئی ہے ۔جیل کے سابق قانونی افسر سنیل گپتا کا کہنا ہے کہ جیل میں بند ان چاروں قیدیوں کو ایک ہی دن پھانسی ہونی ہے کیونکہ یہ چاروں ایک ہی معاملہ کے قصوروار ہیں اسی لئے ایک دن میں ہی ان سبھی کو پھانسی ہونا ضروری ہے ۔کہ کسی کےخلاف کوئی بھی معاملہ التوا میں نا ہو باقی تین کے معاملے میں رحم کی اپیل کا متبادل کیا ہے اگر ان میں سے کسی نے بھی عرضی ڈالی تو اس میں فیصلہ آنے تک کسی کو پھانسی نہیں ہو سکتی ۔سپریم کورٹ سے فیصلہ آنے کے بعد 7دن کے اندر جیل انتظامیہ کو چاہئے تھا کہ وہ قیدیوں کو نوٹس دیتا کہ اگر ان کو کوئی قانونی متبادل استعمال کرنا ہے تو 7دن میں کر لیں لیکن یہ نہیں کیا گیا ۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جیل انتظامیہ نے اس معاملے لاچاررویہ اپنایا تو دہلی سرکار کو اس بارے میں آگے کو آکر جیل انتظامیہ کو حکم جاری کرنا چاہئے تھا کیونکہ تہاڑ جیل وزیر اعلیٰ کیجریوال کے دائرے اختیار میں آتی ہے ۔نربھیا کے درندوں کا ڈیتھ وارنٹ باربار ٹلتا جا رہا ہے اس کی ایک بڑی وجہ قانون کے ہی کچھ تقاضے ہیں پھانسی سے بار باربچنے کی سب سے بڑی وجہ جو سامنے آئی ہے وہ پھانسی کا فیصلہ ہو جانے کے بعد اس پر طے وقت میں کاروائی نا ہونا ہے ۔نربھیا کے سمیت سینکڑوں مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں جس میں سزا تو ہو گئی لیکن عمل نہ ہو سکا۔نربھیا معاملے کو چلتے ہوئے سات سال سے زیادہ کا وقفہ ہو گیا ہے اور اب بھی معاملہ قانونی داو ¿ پیچ میں پھنسا ہوا ہے ۔دہلی ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج ایس این ڈھینگرا اور جسٹس آڑ ایم سوڈی کا کہنا ہے کہ اس کاروائی کو طے میعاد میں کرنا ہوگا تبھی وقت پر سزا ملے گی اور عدلیہ تنز کا مزاق نہیں بنے گا ایسی قانونی پیچیدگیوں کو دور کرنے کیلئے سابق ججوں نے قانون میں ترمیم کی وکالت کی جسٹس ڈھینگرا نے کہا کہ پھانسی کی سزا سنائے جانے کے بعد نظر ثانی عرضی ،کیوریٹو اور رحم کی عرضی دائر کرنے کیلئے میعاد یقینی وقت طے کرنا ہوگا ۔نربھیا کے معاملے میں یہی ہوا کہ پھانسی سنائے جانے کے بعد نا تو قصورواروں نے عرضیہ دیں اور نا جیل میں یہ کام ہوا کہ پھانسی سنائے جانے کے بعد ناقصورواروں نے عرضیہ دیں اور جیل نے ڈیتھ وارنٹ کی کاروائی شروع کر دی ڈھائی سال بعد نربھیا کی ماں کورٹ پہونچی تو پھانسی کی کاروائی شروع ہوئی اسی لئے قانون میں صاف کرنا ہوگا جیل طے وقت کے تحت پوری کاروائی نہیں کرتا تو اس پر کاروائی ہوگی ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟