سی اے اے نافذ نہ کرنے پر کچھ ریاستیں اڑیل

آزادی کے بعد کئی بار ایسے موقع آئے ہیں جب مرکز کو کسی قانون کو لے کر سڑک سے پارلیمنٹ تک سوال کھڑے گئے ہیں لیکن شاید یہ پہلی بار ہے کہ پارلیمنٹ کے ذریعہ پاس نئے شہریت ترمیم قانون (سی اے اے )کے خلاف اپوزیشن حکمراں ریاستوں کا عوام کا ایک حصہ احتجاج میں کھڑا ہو گیا ہے ۔لیفٹ فرنٹ کی قیادت والی کیرل اسمبلی اور کانگریس کی بالا دستی والی پنجاب اسمبلی میں اس کے خلاف با قاعدہ پرستاﺅ پاس ہو چکے ہیں ۔معاملے کو آگے بڑھاتے ہوئے کانگریس کے سینر لیڈر احمد پٹیل نے کہا کہ ان کی پارٹی راجستھان ،مدھیہ پردیش ،اور چھتیس گڑھ میں اپنی پارٹی کی حکمراں ریاستوں میں سی اے اے کے خلاف تجویز لانے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے ۔حالانکہ کانگریس کے ہی سینئر لیڈر کپل سبل نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ سے پاس ہو چکے سی اے اے کو نافذ کرنے سے کوئی ریاست انکار نہیں کر سکتی ۔اور ایسا کرنا غیر آئینی ہوگا ۔سبل کا یہ بیان کافی اہم ہے کیونکہ ان کی پارٹی اس مسئلے پر اپوزیشن کو متحد کر کے سرکار پر دباﺅ بنانے میں لگی ہے ۔سینئر وکیل اور کانگریس نیتا نے دلیل پیش کی کہ جب ریاستیں یہ کہتی ہیں کہ وہ سی اے اے نافذ نہیں کریں گی تو ان کا کیا فرض ہوتا ہے اور وہ ایسا کیسے کریں گی کئی اور ماہرین بھی کہہ رہے ہیں کہ مرکز کے قانون کے خلاف کسی اسمبلی کے ذریعہ پرستاﺅ پاس کرنا ایک غلط روایت کی شروعا ت ہے کیرل نے تو سے اے اے کے آئینی جواز کو بھی چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دی ہے ۔کانگریس سمیت دیگر اپوزیشن پارٹی کا ماننا ہے کہ یہ قانون آئین کی بنیادی روح کے خلاف ہے یعنی برابری مذہبی آزادی اور سیکولرزم کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی کرتا ہے حالانکہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کا کہیں بھی تذکرہ نہیں ہے لوگوں کو بنیادی حقوق کی حفاظت کے لئے سپریم کورٹ کے ذریعہ وقتا فوقتا آئین کے تقاضوں کا جائزہ اور تشریح کرنے کے دوران بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی کا فروغ ہوا ہے 1973میں کیشو آنند بھارتی بنام کیرل سرکار معاملے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ کو آئین کے کسی بھی تقاضے کو ترمیم کرنے کا حق ہے لیکن وہ آئین کے بنیادی ڈھانچے میں کسی طرح کی چھیڑ چھاڑ نہیں کر سکتا ۔حالانکہ سپریم کورٹ نے آئین کے بنیادی ڈھانچے کی واضح تشریح نہیں کی لیکن دانشوروں اور جج صاحبان نے جمہوریت بنیادی حقوق آئین کی بالا دستی وغیرہ کو آئین کے بنیادی ڈھانچے کی شکل میں تسلیم کیا ہے اسمبلی کے ذریعہ سی اے اے کے خلاف پاس پرستاﺅ کو مناسب ٹھہرانے والوں کا کہنا ہے کہ شہریت ترمیم قانون میں آئین کی سہولت کے بر خلاف جاتے ہوئے فوری طور پر شہریت کے لئے کچھ خاص طبقوں کی نشاندہی کی گئی ہے ۔اور ایک مذہبی فرقہ کو چھوڑ دیا گیا ہے ۔اب سب کی آنکھیں سپریم کورٹ پر لگی ہیں جو اس قانون کے بارے میں فیصلہ کرئے گی کہ یہ قانون آئین پر مبنی ہے یا نہیں ؟

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟