ان جانباز جوانوں پر ہمیں فخر ہے
جموں کے سنجوان آرمی کیمپ پر حملہ کے دوران دہشت گردوں سے مقابلہ کرتے ہوئے دیش کے بہادر جوانوں کے ایک سے بڑھ کر ایک دلچسپ قصہ سامنے آرہے ہیں۔ حملہ میں میجر ابھیجیت اس قدر زخمی ہوگئے تھے کہ انہیں تین چار دن تک باہری دنیا کی کوئی خبر نہیں رہی۔ آپریشن کے بعد ہوش میں آتے ہی بھارت کے اس بہادر لال کا پہلا سوال تھا آتنکیوں کا کیا ہوا؟ میجر ابھیجیت کا علاج اودھم پور کے آرمی اسپتال میں چل رہا ہے۔ اسپتال کے کمانڈینٹ میجر جنرل نودیپ نتھانی نے کہا کہ ابھیجیت کا حوصلہ کافی اونچا ہے۔ زخمی میجر واپس ڈیوٹی پر جانے کے لئے بے چین ہے۔ سنجوان حملہ میں شہید ہوئے پانچ فوجیوں میں ایک ایسا جوان بھی تھا جس نے بغیر ہتھیار کے ہی بزدل آتنکوادیوں سے لوہا لیا اور شہید ہونے سے پہلے اپنے خاندان سمیت نہ جانے کتنے لوگوں کی جان بچائی اے کے۔47 رائفل گرینیڈ اور دیگر خطرناک ہتھیاروں سے پوری طرح لیس ہوکر آئے آتنکیوں سے وہ اکیلے اور نہتے ہی بھڑگئے۔ سینہ و جسم کے کئی حصہ آتنک وادیوں کی گولیوں سے چھلنی ہوگئے۔دیش بھکتی میں ڈوبا خون کا ایک ایک قطرہ بہہ گیا لیکن آتنک وادیوں کو آخری سانس تک روکے رکھا۔ اپنے کنبہ کے ساتھ دیگر کئی فوجی خاندانوں کی جان بچا کر وہ جانباز شہید ہوگیا۔ یہ قربانی کی کہانی سنیچر کو فدائین حملہ میں شہید ہوئے جموں و کشمیر کے کٹھوا کے صوبیدار مدن لال (50 سال) کی ہے۔ شہید کا خاندان ملٹری اسٹیشن سنجوان میں واقع ان کے کوارٹر میں آیا تھا۔ مدن لال کے بھتیجے کی شادی کے لئے وہ شاپنگ کرنے کے لئے ٹھہرے ہوئے تھے تبھی فدائین حملہ ہوا۔ رہائشی علاقہ میں گھسے آتنکی صوبیدار مدن لال کے کوارٹر کی طرف بڑھے تب مدن لال کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا۔ آتنکی آتنکوادیوں نے ان پر اے کے ۔47 سے گولیاں برسانی شروع کردیں۔ شہید ہونے سے پہلے ان کی حتی الامکان کوشش رہی کہ ان کا خاندان پچھلے گیٹ سے باہر نکل جائے حالانکہ اس میں ان کی 20 سالہ بیٹی نیہا کی ٹانگ میں گولی لگ گئی۔ سالی پرمجیت کور کو بھی معمولی چوٹیں آئیں لیکن وہ وہاں سے بچ پانے میں کامیاب ہوگئیں۔ شہیدمدن لال اگر کچھ دیر آتنک وادیوں کو روکے رکھنے میں کامیاب نہیں ہوتے تو کچھ اور لوگوں کی جان چلی جاتی۔ مدن لال کے بھائی سریندر کہتے ہیں کہ مجھے اپنے چھوٹے بھائی پر فخر ہے جو اپنے خاندان کوبچانے کیلئے آخری دم تک آتنک وادیوں سے لوہا لیتا رہا۔ ہم بہادر شہیدوں کو شردھانجلی پیش کرتے ہیں۔ جے ہند۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں