ایرانی صدر روحانی کے دورہ ہند کی اہمیت
ایران کے صدر حسن روحانی جمعرات کو سہ روزہ دورہ ہند پر حیدر آباد آئے۔ بیگم پیٹ ایئرپورٹ پر روحانی کا شاندار استقبال کیا گیا۔روحانی حیدر آباد دوسری مرتبہ آئے ہیں لیکن صدر بننے کے بعد وہ پہلی بار تشریف لائے۔ ایران کے صدر کے اس دورہ میں چابہار بندرگاہ، بھارت۔ ایران کے درمیان کھیل کاروبار سمیت کئی دوسرے اقتصادی امور پر بات ہونے کی امید ہے۔ ایران بھارت کو تیل سپلائی کرنے والا تیسرا بڑا دیش ہے۔ اس کے علاوہ اگر ہم سیاسی پس منظر سے دیکھیں تو بھارت اور ایران، افغانستان میں اتحاد ی رول رہا ہے لیکن اب امریکہ نے ایران کے خلاف جو رخ اپنایا ہے تو ایسے میں بھارت کو پھونک پھونک کر قدم بڑھانا ہوگا تاکہ دونوں ملکوں سے بھارت کا توازن بنا رہے ساتھ ہی بھارت کا رخ فلسطین اور ااسرائیل کو لیکر ایران سے الگ رہا ہے وہیں سعودی عرب میں بھارت امریکہ کے قدم کے ساتھ دکھائی پڑتا ہے۔ ایسے میں اگر خارجہ ڈپلومیسی کو دیکھیں تو دونوں دیشوں کے درمیان بہت سے سوال موجود ہیں اس لئے فی الحال تو اس دورہ سے ایسا نہیں لگتا کہ کوئی بڑا سیاسی قدم اٹھائے جانے کا امکان ہے۔ منموہن سنگھ کے عہد میں ایک وقت بھارت اور ایران کے رشتے کافی نازک موڑ پر آگئے تھے۔ اس وقت ایران کو بھارت کی بہت ضرورت تھی لیکن اب مشرقی وسطی میں جو حالات ہیں ان میں ایران بھارت پر بہت زیادہ منحصر نہیں کرتا اس لئے یہ دیکھنا ہوگا کہ بھارت کو تیل کے علاوہ ایران کی کتنی زیادہ ضرورت ہے ۔ فی الحال تو پچھلے ایک سال سے بھارت کی خارجہ پالیسی امریکہ پرمرکوز ہوگئی ہے۔ ایسے میں ایران کا رول ابھی تک واضح نہیں ہے۔ 1970 سے 1980 کی دہائی میں بھارت اور ایران کے درمیان اپنی ٹھوس خارجہ پالیسی تھی اور ایران ایسا دیش رہا ہے جو کشمیر پر کبھی زیادہ نہیں بولتا تھا یہاں تک کہ جو اسلامی ملک کشمیر کے لئے کوئی ریزولوشن پاس ہوتے تھے تب بھی ایران کا رخ بھارت حمایتی رہتا تھا۔ اس کے بعد منموہن سنگھ کی حکومت کے دوران بھارت۔ امریکہ کے درمیان قریبی رشتے بننے سے ایران اور بھارت کی دوری بننے لگی۔ بھارت اور ایران دوستی کا سب سے بڑا مضبوط ہے چابہار۔ ایسے میں دیکھیں تو بھارت کو لیکر ایران کی خارجہ پالیسی میں بہت فرق آیا ہے۔ بھارت کا ایران سے تیل سپلائی کا رشتہ ہے کیونکہ وہ بھارت کو سستا تیل مہیا کرواتا ہے۔ وہیں ایران کو بھارت کی شکل میں ایک جمہوری دیش کی حمایت کی ضرورت ہے۔ صدر روحانی کی آمد کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں