آئی ایس آئی کا ہنی ٹریپ
پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو دیش سے وابستہ خفیہ اطلاعات دینے کے الزام میں انڈین ایئرفورس گروپ کے کیپٹن کی گرفتاری چونکانے والی ہے۔ ویسے تو بھارت۔ پاکستان دونوں ایک دوسرے کی جاسوسی کرتے رہتے ہیں لیکن جب اپنے ہی دیش کا کوئی شخص دشمن کے لئے جاسوسی کرتا پکڑا جائے تب حالت اور بھی مشکل بھری ہوتی ہے جب پکڑا جانے والا شخص فوج کا ہی کوئی افسر ہو۔ انڈین ائیرفورس گروپ کے کیپٹن ارون ماروا کی گرفتاری اسی لحاظ سے پریشان کن خبر ہے اور چونکانے والی بات یہ بھی ہے کہ ایئرفورس کے ہیڈ کوارٹر میں تعینات اس افسر کو پاک خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے جس طرح اپنے جال میں پھنسایا اس سے کان کھڑے ہوجاتے ہیں۔ فو ج کو لالچ دینے کیلئے حسیناؤں کے استعمال کی کہانیاں ہم سنتے آئے ہیں لیکن اس بار کوئی حسینہ نہیں بلکہ اس بار عورتوں کے نام پر بنی نقلی آئی ڈی تھی۔ عدالت کے سامنے پولیس نے بتایا کہ کچھ مہینے پہلے ایئرفورس کے گروپ کیپٹن ارون ماروا ترویندرم گئے تھے وہیں آئی ایس آئی کے خفیہ ایجنٹ نے لڑکی بن کر فیس بک پر ان سے دوستی کی تھی۔ اس کے بعد دونوں میں لگاتار فون پر چیٹنگ ہونے لگی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو فحاشی میسج بھیجے۔ لڑکی بنے آئی ایس آئی ایجنٹ نے سیکس چیٹ کے ذریعے ماروا کو جال میں پھنسا لیا۔ قریب 10 دن چلی چیٹ کے دوران ایجنٹ نے کیپٹن سے میٹھی میٹھی باتوں میں پوری طرح پھنسا کر اس سے کئی خفیہ دستاویز دینے کی مانگ کی تھی۔
ماروا نے کچھ خفیہ دستاویزوں کو تو مہیا کرادیا لیکن کچھ ہفتے بعد ایئرفورس کے ایک سینئر افسر کو ماروا کی اس حرکت کے بارے میں جانکاری ملی۔ افسر نے اس پر شعبہ جاتی جانچ بٹھا دی۔ جانچ کے دوران ارون ماروا کے جاسوسی میں ملوث پائے جانے کے بعد ایئرفورس کے سینئر افسر نے دہلی کے پولیس کمشنر امولیہ پٹنائک سے اس کی شکایت کی۔ اور دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے جمعرات کو اسے گرفتار کرلیا۔ ماروا نے پوچھ تاچھ کے دوران قبول کیا کہ ا س کا ایک پرانا ساتھی بھی اس میں شامل تھا۔ اس نییہ بھی اعتراف کیا کہ اس کا ساتھی مبینہ دو پاکستانی عورتوں کا سانجھہ دوست تھا جنہیں انہوں نے نئی سائبر جنگ سیکٹر اور خلا و خصوصی آپریشن کے بارے میں خفیہ اطلاعات لیک کی تھیں۔ ماروا نے یہ بھی مانا کہ انہوں نے عورتوں کو فیس بک پر ایئر فورس کی کارروائیوں کے بارے میں جانکاری دی۔ ہیڈ کوارٹر میں تعیناتی کے سبب کئی اہم اور خفیہ دستاویزوں تک ان کی پہنچ تھی۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں