آدھار معلومات کا افشاں ہونا

یقینی طور سے اگر یہ معلومات صحیح ہیں کہ مرکز اور ریاستی حکومتوں کی 210 ویب سائٹس نے لوگوں کی آدھار سے وابستہ معلومات کو عام کردیا ہے تو یہ باعث تشویش ہی نہیں بلکہ ایک طرح سے بھروسے کو توڑنا ہے۔ ابھی تک سرکار کی جانب سے یہ بار بار یقینی دہانی کرائی جاتی رہی ہے کہ آدھار سے جڑی معلومات ایک دم سے محفوظ ہیں اور ان کے افشاں ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ آدھار کارڈ جاری کرنے والی کمپنی ہندوستانی مخصوص پہچان اتھارٹی یعنی یو آئی ڈی اے آئی بھی یہی دعوی کرتی ہے لیکن اب اسی ادارہ نے اطلاعات حق قانون کے تحت مانگی گئی معلومات میں یہ بنیادی طور پر تسلیم کیا ہے۔ یو آئی ڈی اے آئی نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس نے اس خلاف ورزی کا نوٹس لیا ہے اور ان ویب سائٹوں سے معلومات ہٹوادی ہیں۔ ادارہ نے ڈاٹا لیک ہونے کے سلسلے میں اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ثبوتوں کو صحیح طریقے سے پیش نہیں کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ آدھار ڈاٹا پوری طرح سے محفوظ ہے اور یو آئی ڈی اے آئی میں ڈاٹا نہ چوری ہوا ہے اور نہ ہی افشاں ہوا ہے۔ اس نے کہا کہ ان ویب سائٹوں پر جو ڈاٹا عام ہوئے ہیں وہ اطلاعات حق قانون کے تحت دئے گئے ہیں اور اداروں کی ویب سائٹ پر فائدہ یافتگان کے نام، پتہ، بینک کھاتہ اور آدھار سمیت دوسری جانکاریاں جاری کی گئی ہیں۔ یہ اعدادو شمار تیسرے فریق یا استعمال کنندگان کے ذریعے مختلف بہبودی اسکیموں کے لئے اکٹھا ڈاٹا ہے جو اطلاعات حق قانون کے تحت پبلک کئے گئے ہیں۔ اس نے پھرسے اس بات پر زور دیا ہے کہ یو آئی ڈی اے آئی کی جانب سے آدھار کی تفصیل کو کبھی لیک نہیں کیا گیا ہے۔ ہم اس کے دعوے کو بھی تسلیم کرلیتے ہیں کہ یہ ایک منظم مشینری ہے اور مستقبل میں جانکاریاں لیک نہ ہوں اس کے پختہ قدم اس نے کئے ہیں لیکن جن فائدہ یافتگان نام ،پتہ سمیت دیگر معلومات پبلک ہوئی ہیں ان کا کیا؟ اگر کسی نے اس کا بیجا استعمال کر ایسے لوگوں کے نام پر کچھ گورکھ دھندہ کرلیا ہو تو اس کی ذمہ داری کس کی ہوگی؟ اس لئے یو آئی ڈی اے آئی کا اتنا کہنا کافی نہیں ہوسکتا کہ اس نے جانکاریاں ہٹوادی ہیں اور مستقبل میں ایسا نہیں ہوگا۔ مرکزی سرکار مختلف سماجی منصوبوں کا فائدہ اٹھانے کے آدھار کو ضروری کرنے کی کارروائی میں ہے۔ سپریم کورٹ میں آدھار کو ضروری کرنے پرسماعت چل رہی ہے۔ عدالت نے ذاتی معلومات کو بنیادی حق مانا ہے اس فیصلہ کی بنیاد پر پبلک کی گئی اطلاعات سے متعلق افراد کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آجائے گی۔ آدھار جانکاریوں کا لنک ہونا بہت بڑی غلطی ہے اور اس کے لئے سرکار کو اور سخت قاعدے بنانے ہوں گے تاکہ یہ لیک نہ ہوں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟