نہ کاروبار سدھارا اور نہ ہی کرپشن ختم ہوا

بیشک امریکہ کی عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے 13 سال میں پہلی بار بھارت کی کریڈٹ ریٹنگ کو ایک پائیدان بہتر کیا ہو لیکن کیا حقیقتاً زمینی صورتحال سدھری ہے؟ ایسوچیم کے نئے منتخب چیئرمین انل کھیتان کا تو کچھ اور ہی کہنا ہے۔ بھارت میں کاروبار بڑھنے کے سیکٹر میں حالات نہیں سدھرے ہیں۔ نچلی سطح پر ابھی بھی بڑے پیمانے پر کرپشن پھیلا ہوا ہے۔ کھیتان نے کہا صرف باتیں ہی ہورہی ہیں اور کوئی کام نہیں ہورہا۔ جب تک سرکار جو کہتی ہے اس پر چلتی نہیں ہے یہ ایک بڑی ناکامی ہوگی۔ پالیسیوں کا اعلان کیا جاتا ہے لیکن پالیسیوں کے اعلان کرنے کے بعد ان پر عمل کرنا ایک طرح سے ان کا بیکار ہونا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا نوٹ بندی کے منفی اثرات سے نکلنے میں کاروبار کو ابھی کم سے کم 14 مہینے لگیں گے۔ ایک انٹرویو میں کھیتان نے کہا کہ سرکار کی اعلی قیادت میں اب کرپشن نہیں بچا ہے لیکن سرکاری مشینری کے سب سے نچلی سطح پر یہ وسیع طور پر پھیلا ہوا ہے اس سے دیش کا کاروبار چلن کا ماحول خراب ہوتا ہے۔ کھیتان سے پوچھا گیا تھا کہ ورلڈ بینک کی کاروبار انڈیکس رپورٹ میں بھارت کی رینکنگ 30 ویں مقام سے سدھر کر 100 ویں مقام پر آنے کا کیا حقیقت میں بھارت کا کاروبار انڈیکس ماحول بہتر ہوا ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا نہیں مجھے ایسا نہیں لگتا۔ آپ کسی بلڈر سے بات کیجئے، حالات ویسے ہی ہیں۔ کرپشن اب دوگنا ہوگیا ہے کیونکہ اب سرکار میں اعلی سطح پر کرپشن نہیں ہے ایسے میں اگر آپ کرپٹ نہیں ہونے کے اپنے عزم پر جارحانہ بنے رہتے ہیں تو نچلی سطح کے افسر بڑے آرام سے کہہ دیتے ہیں کہ تم پردھان منتری کے پاس جاکر ہی اپنا کام کیوں نہیں کرا لیتے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کی جی ڈی پی میں اضافہ شرح جولائی ۔ستمبر کی سہ ماہی میں 5.7 سے بڑھ کر 5.9 فیصد قرض کے درمیان بنی رہے گی اور پورے مالی سال میں یہ 6.65 فیصد کے درمیان رہنے کا امکان ہے۔ سرکار کے نوٹ بندی کے فیصلے پر کھیتان نے کہا میرے نظریئے میں یہ ایک اچھا قدم ہوگا اگر سرکار پرانے 500 اور 1000 کے نوٹ کو 31 مارچ تک چلنے دیتی اور 1 اپریل 2017ء کے بعد اس کے قانونی جواز کو ختم کردیتی۔ انہوں نے کہا کہ سرکار کو اعلان کرنا چاہئے تھا کہ ہم 500-1000 کے نوٹوں کی چھپائی بند کررہے ہیں ، جو شخص 500-1000 کے نوٹ کا اعلان کرتے ان سے یکمشت معاوضہ 25 فیصد کی شرح پر کر لیا جاتا۔ اس طرح یقینی طور پر کالا دھن بھی واپس آجاتا۔ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟