’’پدماوتی ‘‘ کی ریلیز پر سنکٹ کے بادل

بالی ووڈ پروڈیوسر ڈائریکٹر سنجے لیلا بھنسالی کی 180 کروڑ روپے کی لاگت سے بنی اہم ترین اور سرخیوں میں آئی فلم ’’پدماوتی‘‘ کو لیکر ابھرا تنازع جس طرح سے چل رہا ہے اس کے چلتے فلم کا ریلیز ہونا مشکل لگ رہا ہے۔ فلم ریلیز ہونے سے پہلے ہی تنازعوں میں گھر گئی ہے۔ فلم کو 1 دسمبر کو ریلیز کرنے کا پلان تھا لیکن ابھی تک سینسر بورڈ کے پاس نہیں بھیجاگیا ہے۔ یہ فلم تنازع میں اس وقت آگئی تھی جب راجستھان میں اس کی شوٹنگ کے وقت سیٹ پر کرنی سینا نے توڑ پھوڑ کرکے اپنی منشا ظاہر کردی تھی۔ کرنی سینا اور اکھل بھارتیہ چھتریہ یووا مہا سبھا کو اعتراض اس بات پر ہے کہ بھنسالی نے پدماوتی کے کردار کوتوڑ مروڑ کر پیش کیا ہے۔ شوٹنگ کے ٹائم جب توڑ پھوڑ ہوئی تو سنجے لیلا بھنسالی نے ناراض لوگوں کو یقین دلایا تھا کہ فلم میں کچھ بھی رائج مانیتاؤں کے برعکس نہیں ہوگا لیکن جب فلم ’’پدماوتی‘‘ کا ٹیلر آیا تو لوگوں کو یہی لگا کہ انہی دی گئی یقین دہانی کو پورا نہیں کیا گیا۔اس طرح یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ’پدماوتی‘ کے عزت و وقار کو لیکر فکرمند لوگ فلم کے عنوان آنے اور اسے دیکھے بنا اس نتیجے پر کیسے پہنچ گئے کہ ان کیعکاسی صحیح طرح سے نہیں کی گئی ہے۔ اسی طرح یہ فلم ساز و کی طرف سے اس خیالی اندیشے کو دور کرنے میں جلد بازی کا ثبوت کیوں دیا ہے؟ ایسا بھی لگتا ہے کچھ لوگ ایسے ہیں جن کو دلچسپی اس تنازع کو طول دینے میں ہے۔ کیا اس لئے ہنگامہ ہوتا رہے اور مفت میں پبلسٹی ملتی رہے؟ ایسے سوال اس لئے بھی ابھرے ہیں کیونکہ فلم پروڈیوسر سینسر بورڈ کی ہاں یا نہ کا انتظار کئے بغیر اور یہاں تک کہ اسے صحیح طرح سے فلم کی کاپی سونپے بغیر کچھ چنندہ لوگوں کو فلم دکھانا پسند کرتے ہیں لیکن اس میں وہ لوگ شامل نہیں ہوتے جو زیادہ اعتراض ظاہر کررہے ہوتے ہیں؟ آخر سینسر بورڈ سے پہلے فلم کو میڈیا کے چنندہ لوگوں کو دکھانا اور ان کے ذریعے جنتا کو پیغام دینے کا کیا مطلب نکالا جائے؟ فلم پروڈیوسر کے رویئے پر سینسر بورڈ کا اعتراض حق بجانب ہے۔ راجستھان اور دیش کے دیگر حصوں میں آج پدماوتی کی مخالفت ہورہی ہے۔بیشک اظہار رائے کی آزادی کا احترام ہونا چاہئے لیکن اسی کے ساتھ کسی کو فن اور روشن خیالی کے نام پر دھارمک کلچر کی روایتوں و تقاضوں کی بے حرمتی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ کچھ لوگ پورے تنازع کو اس میں الجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ تاریخ میں پدماوتی کا کردار ملتا ہی نہیں۔ اہم یہ نہیں ہے کہ پدماوتی تھی یا نہیں، اہم یہ ہے کہ فلم میں کیا آپ نے پدماوتی کا کریکٹر ویسا ہی دکھایا ہے جیسی مانیتا ہے؟ بلا شبہ رائج دقیانوسیت کو توڑنے کا کام کیا جاسکتا ہے لیکن ایسا کرتے وقت لوگوں کو جان بوجھ کر اکسانا اور بھڑکانے کا کوئی مطلب نہیں۔ عام طور پر تاریخی فلمیں ہوبہو حقائق پر مبنی نہیں ہوتیں ، فلم کو تفریح آمیز بنانے کے لئے پروڈیوسر ڈائریکٹر مسالے کا تڑکا لگا کر پیش کرتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ تاریخ کو ایسے توڑ مروڑ کر پیش کیا جائے کہ کسی فرقے کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔ بھارت جیسے مہذب اور ذات پات پر گمان کرنے والے سماج میں فلم پروڈیوسروں کو خاص طور پر احتیاط برتنے کی سمجھ ہونی چاہئے لیکن سنجے لیلا بھنسالی اور اداکارہ دیپکا پاڈکون کے خلاف جس طرح کا فرمان جاری کیا گیا ہے اس کی مذمت ہونی چاہئے۔ کسی بھی وقت اور جدید سماج میں احتجاج کا یہ طریقہ ناقابل قبول ہے۔ جو لوگ بھی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ منمانی کررہے ہیں وہ نہ تو اپنا بھلا کررہے ہیں اور نہ سماج کا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کوئی فلم مظاہرہ کے لائق ہے یا نہیں اسے طے کرنے کا اختیار سینسر بورڈ کا ہے اور یہ کام اسے ہی کرنے دیا جانا چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟