پہلے کفن کا بل دو پھر ملے گی لاش

پرائیویٹ اسپتالوں کی دھاندلے بازی کی مثال پہلے بھی کئی بار سننے میں آچکی ہے یہ کس طرح سے مریض کو لوٹتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال فورٹیز اسپتال کی ہے۔ دوارکا میں مقیم شخص جینت نے اپنی 7 سالہ بچی کو فورٹیز اسپتال گوڑگاؤں برانچ میں داخل کروایا۔ بچی کو ڈینگو ہوگیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ بچی جو بات کرتے ہوئے اسپتال میں داخل ہوئی تھی قریب 15 دن بعد اس کا برین 70 سے80فیصد ڈیڈ ہوچکا تھا۔ دو دن بعد اسپتال میں ہی اسے کسی ایسے اسپتال لے جانے کو کہا جہاں پیڈریاٹک آئی سی یو کا انتظام ہو۔ اس کے بعد وہ 31 اگست کی شام اپنی 7 سالہ بیٹی آدھا کو لیکر گوڑ گاؤں کے فورٹیز اسپتال پہنچے۔ ماں دپتی سنگھ نے بتایا کہ ہم جب اسپتال جا رہے تھے تو ہماری بچی ٹھیک تھی اور جسمانی طور پر وہ تندرست لگ رہی تھی۔ اسے بخار تھا۔ حالانکہ راک لینڈ اسپتال میں ہمیں رپورٹ میں بتادیا گیا تھا کہ اسے ڈینگو ٹائپ4 ہے۔ جینت نے بتایا کہ ہمیں پہلے تو سمجھ میں نہیں آیا بعد میں بل دیکھنے کے بعد پتا چلا کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا ہے۔ 15 دن بعد ہمارا کل بل 1579322 روپے بنا۔ یہی نہیں بچی نے جو آخری ڈریس پہنی تھی اس کا بھی 900 روپے کا بل تھمادیاگیا۔ ڈینگو کا شکار ہوئی بچی کی موت کے بعد اس کے خاندان کو 16 لاکھ روپے کا بل دینا پڑا جو آج کل ان پرائیویٹ اسپتالوں کی لوٹ کی ایک مثال ہے۔ اسپتال اب ایک بزنس بن گئے ہیں۔ کولڈ ڈرنکس بنانے والی کمپنیوں کو شیئر کیپٹل ہے تو اسپتالوں کے بھی ہیں۔ یعنی اسپتال میں انویسٹر نے پیسہ لگادیا ہے اور منافع کے لئے وہ اپنے پروڈکٹ کی مارکٹنگ بھی کرتے ہیں۔ نقصان ہونے کی صورت میں اوور بلنگ سے بھی نہیں چوکتے۔ اسے ڈاکٹر ہی نہیں بلکہ سی ای اوکی گائڈ لائنس سے چلایا جاتا ہے۔ یہاں صرف اسپتال کا منافع معنی رکھتا ہے۔ ایک اسپتال کے مارکٹنگ ڈپارٹمنٹ میں کام کرنے والے نے بتایا کہ علاج ، جانچ ، ڈاکٹروں کی فیس سب سی ای او طے کرتے ہیں ، اس لئے اسپتال اپنی مرضی سے بل بناتے ہیں اور ایک حکمت عملی کے تحت ہر مہینے اسپتال کی کمائی کا نشانہ فکسڈ کیا جاتا ہے اور ٹارگیٹ پورا ہو یا نہیں اس کے لئے ہر مہینے 20 تاریخ کو جائزہ لیا جاتا ہے۔ ٹارگیٹ پورا نہ ہونے پر اوور بلنگ کا فرمان بھی جاری کردیا جاتا ہے۔ مرکزی وزیر صحت جے پی نڈا نے منگلوار کو اس معاملہ میں مفصل رپورٹ مانگی اور کہا سرکار اس رپورٹ کی بنیاد پرکارروائی کرے گی۔ نڈا نے واقعہ کو بہت افسوسناک بتایا اور کہا کہ انہوں نے ہیلتھ سکریٹری سے بھی معاملہ کو دیکھنے کو کہا ہے۔ انہوں نے کہا میں نے اسپتال کے حکام سے پوچھ تاچھ کی ہے اور ان سے ہیلتھ منترالیہ کو مفصل رپورٹ دینے کو کہا ہے۔ ڈینگو کے علاج کے لئے 16 لاکھ روپے کا بل جس میں 2700 روپے دستانوں کے بھی جوڑے گئے ہیں دینے والے گوروگرام فورٹیز اسپتال پر ہر طرف سے انگلی اٹھ رہی ہے۔قانونی واقف کاروں کا کہنا ہے متاثرہ پریوار کا دعوی اگر صحیح ہے تو وہ بڑے بل کے خلاف کنزیومر کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں۔ ایڈوکیٹ ادتیہ پرولیا نے بتایا کہ اگر کسی اسپتال کی طرف سے علاج کا بل بڑھا چڑھا کر لیا گیا ہے تو یہ نامناسب کاروباری پریکٹ میں آجائے گا۔ اسپتال کی جانب سے دی گئی سروس میں کوئی خامی ہے تو یہ سیدھے سیدھے ڈیفکٹیو سروسز کا معاملہ ہے۔ ان دونوں ہی الزامات کے تحت متاثرہ خاندان کورٹ جاسکتا ہے۔ اس واقعہ کے بعد ایک بار پھر یہ بحث کا موضوع بن گیا ہے کہ کیا پرائیویٹ اسپتالوں میں مریضوں سے زیادہ پیسہ لیا جاتا ہے؟ کئی پرائیویٹ اسپتالوں کو زمین رعایتی شرحوں پر دی گئی ہے اور اس کے ساتھ شرطیں بھی عائد کی گئی ہیں؟ کیا سرکار ایسے لٹیرے اسپتالوں پر کوئی لگام نہیں لگا سکتی؟ پرائیویٹ اسپتالوں کے روم ، آئی سی یو، وینٹی لیٹر، لیب و جانچ کے چارج سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔ سرکار کو اس پر کنٹرول کرنا چاہئے۔ کرناٹک سرکار نے پرائیویٹ اسپتالوں کو ریٹ کی فہرست دی تھی کہ کتنا چارج لینا ہے۔ ایسے ہی ہریانہ سمیت دیگر ریاستوں کو بھی کرنا چاہئے۔ اس حساب سے نہ تو کوئی درمیانہ یا غریب ان اسپتالوں میں علاج بھی نہیں کراسکتے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟