ہنومان مورتی کو ایئر لفٹ کرنا ہندودھرم میں مانیہ نہیں

دہلی کے قرولباغ میں واقع 180 فٹ لمبی ہنومان مورتی کو ہائی کورٹ نے رج روڈ پر قبضہ ہٹانے کیلئے اسے ایئر لفٹ کرنے پر غور کرنے کیلئے ہدایت سرکاری ایجنسیوں کو دی ہے۔ کورٹ نے اس معاملہ میں اگلی سماعت کے لئے 24 نومبر تاریخ کی تھی۔جھنڈے والان میں واقعہ 108 فٹ اونچی ہنومان کی مورتی معمولی نہیں ہے۔ مندر مینجمنٹ کمیٹی کا کہنا ہے کہ اس مورتی کا وزن 600 ٹن سے زائد ہے اسے ایئر لفٹ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا مورتی کو توڑا جائے گا؟ کمیٹی کا کہنا ہے کہ کسی کو بھی کسی بھی حالت میں مورتی کو ہاتھ نہیں لگانے دیں گے۔ دوسری طرف ہنومان کی یہ مورتی ہائی ٹیک ہے۔ اس طرح کی مورتیاں شاید ہی دیش میں ہوں۔ مورتی کے ہاتھ آٹومیٹک ہیں دونوں مٹھی مشینوں کے ذریعے سے بند ہوتی ہیں اور کھلتی ہیں۔ مورتی کے سینے میں بھگوان رام و سیتا کی سونے کی مورتی قائم ہے۔ ان کے درشن ہنومان کی مورتی کے ہاتھوں کی مٹھی بند ہونے کے بعد ہوتے ہیں اور مٹھی کھولنے پر دونوں مورتیاں چھپ جاتی ہیں۔ مندر کے پجاری گنش دت پانڈے کا کہنا ہے کہ قریب 17 سال میں بن کر تیار ہوئی ہنومان کی اس 108 فٹ اونچی مورتی کو ایئر لفٹ ہونے سے بچانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑیں گے۔ اس مورتی کو ایئر لفٹ کر دوسری جگہ قائم کرنے کی تجویز پر سادھو سنتوں نے بھی سخت اعتراض کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ عدالت کا احترام کرتے ہیں لیکن اس طرح ہندوؤں کے ہر معاملہ میں مداخلت کرنا قطعی مناسب نہیں ہے اور وہ اسے منظور نہیں کرتے۔ قدیم سدھی پیٹھ شری کالکاجی مندر میں واقع مہنت نواس کمپلیکس میں منگل کے روز شری رام جنم بھومی مندر کی تعمیر کے مسئلہ پر اخبار نویسوں سے نروانی اکھاڑے کے مہنت دھرمداس مہاراج، اکھل بھارتیہ اکھاڑہ پریشد کے پردھان مہنت نریندر گری مہاراج کالکا جی پیٹھا دھیشور مہنت سریندر ناتھ اودھوت نے اس مسئلہ پر پوچھے گئے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ آخر ہندوؤں کے دھارمک استھل پر ہی سبھی کو اعتراض کیوں ہوتا ہے جبکہ ہندوؤں کے دھارمک استھان راستوں میں نہیں بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا ہندو دھرم میں مورتی کو دوسری جگہ شفٹ کرنے کی مانیتا نہیں ہے اس وجہ سے کوئی بھی لگی مورتی دوسری جگہ شفٹ نہیں کی جاسکتی۔ انہوں نے کہا کہ جھنڈے والان میں بنی ہنومان مورتی کی اپنی تاریخ و مانیتا ہے ایسے میں اسے وہاں سے ہٹانا دھارمک معاملوں میں مداخلت ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ راجدھانی میں کئی سڑکوں پر دیگر مذاہبوں کے دھرم استھان بنے ہوئے ہیں۔ کئی تو سڑک کے بیچ بنے ہوئے ہیں کیا وہ قبضہ نہیں ہے؟ عدالت کو کیوں ہمیشہ ہندوؤں کے ہی مذہبی مقامات پر قبضہ نظر آتا ہے؟ ہمارا کہنا ہے کہ اگر ہٹانا ہی ہے تو سبھی کو ہٹایا جائے جھنڈے والان میں قائم ہنومان مورتی والے مندر میں کٹرہ میں واقع ویشنو ماتا کی گپھا میں ویشنو ماتا ،کالی ماتا اور سرسوتی ماتا کی پنڈی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ عزت مآب ہائی کورٹ اس پوتر دھارمک استھل سے کوئی چھیڑ چھاڑ کی اجازت نہیں دے گا اور مورتی کو ہٹانے سے بچے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟