مجھے بھگوان ہی اقتدا رسے ہٹا سکتے ہیں
2008 کے چناؤ کے وقت زمبابوے کے راشٹرپتی رابرٹ مگابے نے کہا تھا کہ انہیں بھگوان ہی اقتدار سے ہٹا سکتا ہے۔ انہی مگابے کو منگلوار دیر رات فوج نے تختہ پلٹ کرکے بے دخل کردیا۔ وہ اب گھر میں نظر بند ہیں۔ شاید ہی کسی نے سوچا ہوگا کہ دنیا کے سب سے عمردراز حکمراں مگابے کا یہ حشر ہوگا۔ جس ملک پر وہ 37 سالوں سے اکیلے راج کرتے آرہے تھے وہاں کی فوج نے انہیں نظر بند کردیا۔ زمبابوے پر اب وہاں کی فوج کا راج ہے اور راجدھانی حرارے کی سڑکوں پر فوج کے ٹینک تعینات ہیں۔ افریقی دیش زمبابوے کی آزادی میں بڑا کردار نبھانے والے رابرٹ مگابے آج اگر اپنے ہی محل میں نظر بند ہیں تو اس کے لئے کافی حد تک وہ خود ذمہ وار تو ہے ہیں ان کا یہ حشر نائک سے کھلنائک بنے دنیا کی کئی ایسی ہی دوسری شخصیات کی یاد دلاتا ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ آج زمبابوے کے زیادہ تر لوگ مگابے کو ان کے تاناشاہی طور طریقوں کے لئے ہی جانتے ہیں۔ مگابے اور زمبابوے کے اس سیاسی سنکٹ کے لئے مگابے کی بیوی گریسی کو بھی ذمہ دار بتایا جارہا ہے۔ اس کی شروعات ایک ہفتے پہلے ہی ہوگئی تھی جب رابرٹ مگابے نے اپنی پارٹی زانو پی ایف کے دوسرے بڑے لیڈر نائب صدر ایمرسن مننگاگواکو برخاست کردیا تھا۔ دراصل دسمبر میں زانو پی ایف کی سالانہ کانگریس ہونے والی تھی۔اس میں مگابے اپنی پتنی گریسی کو نائب صدر بنانے کا فیصلہ کرنے والے تھے جسے لیکر ایمرسن اور پارٹی نیتا تیار نہیں تھے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مگابے کے 37 سال سے چلے آرہے اقتدار کے خاتمے کی کہانی خود گریسی مگابے نے تیار کی۔ جولائی 2018 میں زمبابوے میں راشٹرپتی چناؤہونے والے ہیں ،اسے لیکر گذشتہ کچھ وقت سے ملک میں چرچا شروع ہوگئی تھی کہ 93 سال کے رابرٹ مگابے کا اگلا جانشین کون ہوگا؟ مگابے کے اہم حریف تھے نائب صدر ایمرسن مننگاگوا ۔ لیکن مگابے اپنی بیوی گریسی کو کمان سونپنا چاہتے تھے یہ ایمرسن کو کیسے راس آسکتا تھا؟ اس ناراضگی اور فوج کے ذریعے تختہ پلٹ کے بیچ کیا رشتہ ہے اور کیسے یہ سمی کرن بنا اس کی کہانی کچھ دنوں میں سامنے آجائے گی۔ یہ بھی صحیح لگتا ہے کہ مگابے لمبے وقت تک پشچمی ملکوں کی نگاہ میں کھٹکتے رہے ہیں۔ پشچمی ملک انہیں ایک بے رحم حکمراں کے طور سے دیکھتے آئے ہیں۔ جس نے معاشیات کو بربادی کی راہ پر دھکیلا اور اقتدار میں بنے رہنے کے لئے بے ہچک تشدد کا سہارا لیا۔ یہی وجہ ہے کہ فوجی تختہ پلٹ جیسے واقعات پر سخت ردعمل دینے والا پشچمی ممالک فی الحال خاموش ہیں۔ کیا راشٹرپتی عہدے کا اگلا چناؤ جو کہ اگلے سال ہونا ہے اپنے مقررہ پروگرام کے مطابق ہوگا، کہا نہیں جاسکتا۔
صورتحال یہ ہے کہ آج زمبابوے کے زیادہ تر لوگ مگابے کو ان کے تاناشاہی طور طریقوں کے لئے ہی جانتے ہیں۔ مگابے اور زمبابوے کے اس سیاسی سنکٹ کے لئے مگابے کی بیوی گریسی کو بھی ذمہ دار بتایا جارہا ہے۔ اس کی شروعات ایک ہفتے پہلے ہی ہوگئی تھی جب رابرٹ مگابے نے اپنی پارٹی زانو پی ایف کے دوسرے بڑے لیڈر نائب صدر ایمرسن مننگاگواکو برخاست کردیا تھا۔ دراصل دسمبر میں زانو پی ایف کی سالانہ کانگریس ہونے والی تھی۔اس میں مگابے اپنی پتنی گریسی کو نائب صدر بنانے کا فیصلہ کرنے والے تھے جسے لیکر ایمرسن اور پارٹی نیتا تیار نہیں تھے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مگابے کے 37 سال سے چلے آرہے اقتدار کے خاتمے کی کہانی خود گریسی مگابے نے تیار کی۔ جولائی 2018 میں زمبابوے میں راشٹرپتی چناؤہونے والے ہیں ،اسے لیکر گذشتہ کچھ وقت سے ملک میں چرچا شروع ہوگئی تھی کہ 93 سال کے رابرٹ مگابے کا اگلا جانشین کون ہوگا؟ مگابے کے اہم حریف تھے نائب صدر ایمرسن مننگاگوا ۔ لیکن مگابے اپنی بیوی گریسی کو کمان سونپنا چاہتے تھے یہ ایمرسن کو کیسے راس آسکتا تھا؟ اس ناراضگی اور فوج کے ذریعے تختہ پلٹ کے بیچ کیا رشتہ ہے اور کیسے یہ سمی کرن بنا اس کی کہانی کچھ دنوں میں سامنے آجائے گی۔ یہ بھی صحیح لگتا ہے کہ مگابے لمبے وقت تک پشچمی ملکوں کی نگاہ میں کھٹکتے رہے ہیں۔ پشچمی ملک انہیں ایک بے رحم حکمراں کے طور سے دیکھتے آئے ہیں۔ جس نے معاشیات کو بربادی کی راہ پر دھکیلا اور اقتدار میں بنے رہنے کے لئے بے ہچک تشدد کا سہارا لیا۔ یہی وجہ ہے کہ فوجی تختہ پلٹ جیسے واقعات پر سخت ردعمل دینے والا پشچمی ممالک فی الحال خاموش ہیں۔ کیا راشٹرپتی عہدے کا اگلا چناؤ جو کہ اگلے سال ہونا ہے اپنے مقررہ پروگرام کے مطابق ہوگا، کہا نہیں جاسکتا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں