کھوئی زمین پانے کیلئے بہن جی کا سیاسی داؤں
مایاوتی نے جس طرح سے راجیہ سبھا کی ممبر شپ سے استعفیٰ دیا اس سے تو یہی لگتا ہے کہ وہ ایسا کرنے کا من بنا کر آئیں تھیں۔ ہمیں یہ اب تک سمجھ نہیں آیا کہ بہن جی نے ڈپٹی چیئرمین (کانگریسی )کرین سے ناراض ہوکراستعفیٰ دیا ہے یا مودی سرکار سے خفا ہوکر؟ میں اس وقت راجیہ سبھا کی کارروائی اتفاق سے دیکھ رہا تھا جب مایاوتی اترپردیش کے دلتوں کے مبینہ اذیتوں کا اشو اٹھا رہی تھیں۔ انہیں بولنے سے ڈپٹی چیئرمین پی ۔کرین جو کانگریس کے ممبر ہیں ، روکنے کی کوشش کررہے تھے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ نے اپنی بات رکھ دی ہے۔ تقریر کرنے کا وقت نہیں ہے۔ شرد یادو نے بھی ان سے درخواست کی تھی کہ مایاوتی کو بولنے دیا جائے لیکن ڈپٹی چیئرمین صاحب نے اس کی اجازت نہیں دی پھر مایاوتی ناراض ہوکر ایوان سے چلی گئیں۔ مایاوتی کو صاف کرنا چاہئے کہ ان کی ناراضگی کی اصلی وجہ بی جے پی کی مودی سرکار ہے یا کانگریس کے ایم پی ڈپٹی چیئرمین پی۔ جے کورین؟ دلتوں پر حملہ کے واقعات اور خاص کر سہارنپور تشدد پر بولنے کے دوران انہوں نے اپنا آپا کھودیا ،تین منٹ ہوتے ہی کورین نے گھنٹی بجا دی۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ راجیہ سبھا میں اچھا خاصا وقت گزار چکی مایاوتی کو اچھی طرح سے پتہ ہے کہ اس طرح کی گھنٹی بجتی ہی رہتی ہے۔ مایاوتی نے کہا کہ وہ دلت طبقے کی نمائندگی کرتی ہیں اگر ان کے اشو کو وہ راجیہ سبھا میں نہیں اٹھا سکتیں تو انہیں وہاں رہنے کا کوئی اخلاقی اختیار نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مایاوتی نے کچھ جلد بازی میں یہ قدم اٹھایا مگر وہی جانتی ہوں گی کہ ان کے اس قدم کے پیچھے صرف وقتی جذبات نہیں بلکہ سوچی سمجھی سیاسی حکمت عملی ہے۔ ابھی سیشن کا دوسرا دن ہی تھا اور ان کے پاس راجیہ سبھا کے قاعدہ 267 کے تحت دلتوں پر اذیتوں کے اشو پر بحث کرانے کا نوٹس دینے کا حق تھا۔ دلتوں کے درمیان کھسکتے مینڈیٹ سے مایاوتی کا پریشان ہونا فطری ہی ہے۔ حقیقت میں 2012ء سے اترپردیش میں ان کے مینڈیٹ کو جو دھکا پہنچنا شروع ہوا تھا اس کا آخری زوال حالیہ اسمبلی چناؤ میں نظر آیا جب 403 ممبری اسمبلی میں بسپا کی صرف 19 سیٹیں رہ گئیں۔ ویسے بھی مایاوتی کی راجیہ سبھا کی میعاد اگلے سال اپریل میں ختم ہونے والی تھی۔ انہیں احساس رہا ہوگا کہ اب صرف بسپا کے بوتے پر دوبارہ وہاں نہیں پہنچ سکتیں۔ دیکھنا تو یہ ہوگا کہ ان کا استعفیٰ کیا انہیں نئے سرے سے پہلے جیسی سیاسی طاقت دے گا؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں