وزیر اعظم کا تاریخی اسرائیل دورہ

حال ہی میں وزیر اعظم نریندرمودی کا اسرائیل دورہ کئی معنوں میں اہمیت کا حامل رہا۔ جس گرمجوشی سے اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نتن یاہو نے مودی کا خیر مقدم کیا اس سے ایسا لگا کہ جیسے دو وزیر اعظم نہیں بلکہ برسوں سے بچھڑے ہوئے دو بھائی گلے مل رہے ہوں۔ پچھلے 70 برسوں میں بیشک بھارت اور اسرائیل کی دوستی رہی ہو لیکن اتنے کھلے طور سے پہلی بار نظر آئی۔ بھارت اور اسرائیل کا مل جانا دراصل دو تہذیبوں کا ملن ہے۔ یہ تہذیبیں جو قدیمی جڑوں سے جڑی ہیں جنہیں مٹانے کے لئے صدیاں بھی کم پڑ گئیں۔ یہ دونظریات کا ملن ہے اور آج کے حالات میں نہایت فائدہ مند بھی ہے۔ مسلمانوں و عربوں کی نگاہ میں اچھا بنا رہنے کے لئے کانگریس سرکاریں عرب دیشوں کی حمایت کرتی رہی ہیں اور اوپری طور سے اسرائیل کی مخالفت ظاہر کرتی رہی ہیں۔ اسرائیل کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوا کیونکہ بھارت اس سے اربوں روپے کے ہتھیار خریدتا رہا ہے۔ 70 برسوں کے بعد کسی ہندوستانی وزیر اعظم کا اسرائیل دورہ یہ ظاہرکرتا ہے کہ ہماری سیاسی قوت ارادی کتنی کمزور ہے جو ہمارے گھروں میں بم برساتے رہے، سرحد پر آئے دن بزدلانہ حرکتیں کرتے رہے ، ان کے لئے ہم لال قالین بچھاتے رہے، کرکٹ کھیلتے رہے لیکن دور تناہی میں کھڑا ایک ترقی پذیر اور آئینی ترقی کی بلندیاں چھو رہا ایک دیش ہمیں چاہتا رہا ،دوستی کے ہاتھ بڑھائے کھڑا رہا لیکن ہم قباحت سے مرے رہے۔
اب تک اسرائیل سے دوری رکھنے کے پیچھے دو دلیلیں کام کررہی تھیں پہلی بھارت کے مسلمانوں کا ناراض ہونا، دوسرا عرب دیشوں سے بھارت کے رشتوں میں کشیدگی پیدا ہونا لیکن ان دونوں باتوں میں کوئی دم نہیں ہے کیونکہ نہ تو بھارت کے مسلمانوں کو اسرائیل سے کچھ لینا دینا ہے اور نہ ہی عرب دیشوں کو اس سے کوئی مطلب ہے۔ بھارت کس کس سے دوستی رکھتا ہے ، مودی کے اس تاریخی دورہ کے بعد بھارت عرب دیشوں کی پوزیشن وہی رہے گی جو کانگریس کے عہد میں رہی۔ ویسے تو اسرائیل کا رقبہ بھارت کا 160 واں حصہ ہی ہے مگر کچھ تکنیکی سیکٹر میں وہ امریکہ ،روس، برطانیہ، جرمنی اور فرانس ، اٹلی سے بھی آگے ہے۔ ڈیفنس ٹکنالوجی کے کچھ پہلو سے اسرائیل امریکہ سے بھی زیادہ اہل ہے۔ وہ ذرعی سیکٹر میں نئی نئی ایجادات کر سب سے ترقی یافتہ ملکوں میں شمار ہوگیا ہے۔ بھارت کو اس کا فائدہ مل سکتا ہے وہ کھارے اور گندے پانی کو صاف کرکے کھیتی کے کام میں لانے یہاں تک کہ پینے کے پانی کے لائق بنانے کی تکنیک میں بھی ماہر ہے۔ بھارت کے کھیتوں میں 90 فیصد صاف ستھرا پانی جاتا ہے جبکہ اسرائیل میں پانی کی زبردست کمی ہے۔ بھارت کو حالانکہ اس بات پر توجہ دینی ہوگی کہ اسرائیل سے قربت سے عرب ملک ہم سے دور نہ ہوجائیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!