کیا لوک سبھااور ودھان سبھائیں آدھے نمبروں میں کام کرسکتی ہیں
کولکتہ ہائی کورٹ نے ججوں کی تقرری میں ہو رہی تاخیرپر مرکزی سرکار کو سخت پھٹکار لگاتے ہوئے وارننگ دی ہے کہ اس بابت اگر ضروری قدم نہیں اٹھایاگیا تو مناسب کارروائی کی جائے گی۔ عدالت نے اس پس منظر میں سوال کیا کہ کیا لوک سبھا اور ودھان سبھاؤں کے آدھے نمبروں پر کام کرنے کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے؟جسٹس ڈی۔ پی۔ ڈے کی بنچ نے کہا کہ اس کورٹ کیلئے منظور ججوں کی تعداد 72 ہے جبکہ یہ 34 جج ہیں جو کہ منظور تعداد کے 50 فیصدی سے بھی کم ہیں۔ بصد احترام جج صاحبان نے صحیح سوال اٹھایا ہے۔ پارلیمنٹ میں ان ممبران پارلیمنٹ کی حاضری کا کتنا برا حال ہے یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ پارلیمنٹ سیشن کے دوران ممبران کی غیر موجودگی کے ٹرینڈ پرانے ہیں یہاں تک کہ کئی وزیر بھی موجود رہنا ضروری نہیں سمجھتے۔ اس کے چلتے ایوان میں پوچھے جانے والے سوال بغیر جواب رہ جاتے ہیں۔ کئی بار تو کورم بھی پورا نہ ہوپانے کے چلتے ایوان کی کارروائی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ میں کئی بار ان نمائندوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ایوان میں موجود رہنے کی سخت نصیحت تک دی ہے۔ انہوں نے تو یہاں تک کہا کہ وہ کسی بھی ممبر کو اچانک بلا سکتے ہیں اگر وہ دیش کے باہر ہے تب بھی کسی افسر کی معرفت کسی بھی ایم پی سے بات کر سکتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے عوام کے نمائندوں، وزرا کے ذمہ بہت سارے کام ہوتے ہیں لیکن اس بنیاد پر انہیں ایوان کی کارروائی سے باہر رہنے کی فرصت نہیں مل سکتی۔ عوام کے نمائندوں کا کام ایوان کو اپنے علاقہ کے مسائل سے واقف کرانا ،ان کے حل کے لئے قدم تجویز کرنا اور دوسرے ممبران پارلیمنٹ کی طرف سے اٹھائے گئے سوالوں و مسائل وغیرہ کے سلسلہ میں سرکار کی طرف کی گئی کارروائی کو جاننا، سمجھنا اس پر تبصرہ کرنا بھی ہے۔ مگر بہت سارے ایم پی ایوان میں بحث میں شامل ہونا تو دور اپنے علاقہ کے مسائل کو بھی ایوان کے سامنے رکھنا ضروری نہیں سمجھتے۔ حکمراں فریق کے نمائندے اکثر اس لئے خاموشی اختیار کئے رہتے ہیں کہ کہیں ان کے سوالوں سے سرکار کے سامنے ناگزیں صورتحال پیدا نہ ہوجائے یا پھر ان کی کوئی بات ان کے سینئر لیڈروں کو ناگوار نہ گزرے۔ کولکتہ ہائی کورٹ نے صحیح سوال اٹھایا ہے جب ایوان میں آپ سبھی ممبران پارلیمنٹ کی موجودگی چاہتے ہیں تو عدالت میں پوری تعداد میں ججوں کی موجودگی کیوں نہیں؟ امید کی جاتی ہے کہ جج صاحبان کی تقرری جلد سے جلد کرائی جائے گی اور مسئلہ کا حل ہوگا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں