یوپی اسمبلی میں دھماکو شے: سکیورٹی میں بڑی چوک

اترپردیش اسمبلی کو دہلانے کی بڑی دہشت گردانہ سازش بیشک ناکام ہوگئی ہو لیکن اسمبلی میں حکمراں لیڈر کی سیٹ کے نیچے 150 گرام پی ای ٹی این نامی دھماکو پاؤڈر کا ملنا چوکانے والا ہے۔ اس سے پورے سکیورٹی سسٹم پر سوال کھڑا ہونا فطری ہی ہے۔ سفید رنگ کے اسی طرح کے پاؤڈر سے 6 سال پہلے دہلی ہائی کورٹ کی کینٹین میں دھماکہ ہوا تھا۔ وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے جمعہ کو اسمبلی میں اس کا انکشاف کرتے ہوئے اسے بڑی دہشت گردانہ سازش قراردیا ہے۔ انہوں نے ایوان میں کہا کہ ممبر اسمبلی، مارشل، اسمبلی کے ملازم کو چھوڑ کر کوئی بھی اور ہاوس میں نہیں آسکتا اس کے باوجود دھماکو پاؤڈر ملا ،سوال یہ ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو اس کو لیکر اسمبلی میں آئے، اس کا پردہ فاش ہونا چاہئے۔ کیا عوام کے نمائندوں کو خاص رعایت کے نام پر سکیورٹی کی چھوٹ دے دیں گے؟ کیا کسی کو چھوٹ دی جاسکتی ہے کہ وہ اسمبلی و ودھان پریشد کے 503 ممبران کی حفاظت کیلئے چنوتی کھڑی کریں؟ اترپردیش اسمبلی میں جو ہوا وہ کوئی سکیورٹی ریہرسل نہیں تھی وہ حقیقت میں دھماکو پاؤڈر تھا اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی اتنی مقدار تھی کہ اسمبلی کمپلیکس کا ایک تہائی حصہ تو اڑایا جاسکتا تھا۔ اس سے ہم یہ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ اسمبلی کے سبھی سکیورٹی گھیروں کو پار کرتے ہوئے اتنا بڑا خطرہ ایوان تک پہنچ گیا جہاں یہ دھماکو پاؤڈر صفائی کے دوران حکمراں فریق کی کرسی کے قریب پڑا ملا۔ حقیقت میں اس سے سنجیدہ ہوکر ٹھوس قدم اٹھانے کا وقت ہے۔ اسے محض سکیورٹی کی لاپروائی کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس دھماکو پاؤڈر کا استعمال دہشت گرد تنظیمیں کرتی ہیں اور اگر اس کی مقدار 500 گرام تک ہوتی تو یہ ایوان کو تباہ کرنے کے لئے کافی ہوتی۔ اس لئے اگر اس کی جانچ این آئی اے کرے تو اس کے مقصد اور سازش کرنے والوں کے بارے میں جانکاری مل سکتی ہے لیکن رپورٹ آنے سے پہلے اسے سیاسی رنگ دینے سے انہی کا مقصد پورا ہوگا، جواترپردیش کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ سکیورٹی کسی بھی ریاستی سسٹم کا پہلا فرض ہے اور اگر وہ قانون والوں اور سرکار چلانے والوں کی سکیورٹی نہیں کر پائیں گے تو ان شہریوں کی حفاظت کیسے کریں گے جنہوں نے انہیں یہ ذمہ داری سونپی ہے۔ ظاہر ہے کہ عدیم المثال سکیورٹی کی ضرورت ہمیں ایک دو جگہ یا کچھ عمارتوں پر ہی نہیں بلکہ سبھی جگہ ہے۔ کسی بھی ایک جگہ کی چوک کسی بھی دوسری جگہ یا سبھی جگہوں کے لئے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتی ہے اس لئے وزیر اعلی آدتیہ ناتھ کو طویل المدت تجاویز کو ماننے کے ساتھ وسیع اقدامات پر بھی غور کرنا چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!