میونسپل ضمنی چناؤ نتائج:بھاجپا اور عاپ کو جھٹکا، کانگریس کو سنجیونی

قریب ایک برس کی میعاد کیلئے تینوں میونسپل کارپوریشنوں کے 13 وارڈوں میں ایتوار کو ہوئے ضمنی چناؤ بھاجپا ،کانگریس اور آپ تینوں کے لئے سیمی فائنل کی طرح تھے۔ نتیجے چونکانے والے مانے جاسکتے ہیں۔ پہلے بات کرتے ہیں بھاجپا کی۔اس کے لئے نتیجہ مایوس کن رہا کیونکہ تینوں ایم سی ڈی میں اس کی حکومت ہے پارٹی لیڈر شپ دعوی کررہی تھی کہ کارپوریشنوں میں اس کی پرفارمینس اس چناؤمیں اس کی جیت یقینی کرے گی لیکن صرف تین سیٹیں ہی جیت کر یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ لیڈروں کی غیرموجودگی اس پارٹی کو جنتا نے ناکارہ کردیا ہے۔ بھاجپا کے لئے تشویش کا موضوع یہ بھی ہونا چاہئے کہ جن 13 سیٹوں پر ضمنی چناؤ ہوئے تھے ان میں سے7 پر بھاجپا چناؤ جیتی ہوئی تھی اس حساب سے اسے 4 سیٹوں کا تو نقصان جھیلنا ہی پڑا ساتھ ہی اسے بری طرح ہار کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ان نتائج سے بھاجپا کے حکمت عملی ساز اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ بیشک اس کی سیٹیں کم ہوئی ہیں لیکن ووٹ فیصد بڑھا ہے۔ اسمبلی چناؤ میں بھاجپا کو تقریباً32 فیصدی ووٹ ملے تھے ان ضمنی چناؤ میں اس کا ووٹ فیصد بڑھ کر34.1 فیصدی ہوگیا۔ اب بات کرتے ہیں کانگریس پارٹی کی ۔ ان ضمنی چناؤ میں کانگریس کے لئے کھونے کیلئے کچھ نہیں تھا پارٹی میونسپل کارپوریشن چناؤ2007،2012، دہلی اسمبلی چناؤ2013 اور 2015 میں کبھی ان 13 وارڈوں میں پہلے نمبر پر نہیں رہی ہے۔ کانگریس کیلئے یہ ضمنی چناؤ خاصہ تشفی بھرا مانا جاسکتا ہے اور اس نے 4 سیٹیں حاصل کیں، پانچویں بھی ایک طرح سے کانگریس کے کھاتے میں گئی کیونکہ یہاں سے جیتا باغی کونسلر کانگریسی ہے۔ کانگریس کے لئے ایک خوشی کی بات یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جن 13 وارڈوں میں ضمنی چناؤ ہوئے ان میں سے اس کی کوئی بھی سیٹ نہیں تھی۔ یاد رہے اسمبلی چناؤ (2015) میں ہوئے چناؤ میں کانگریس کو ایک بھی سیٹ نہیں ملی تھی۔ اس کی اہم وجہ تھی کہ کانگریس کا ووٹ بینک کھسک کر عام آدمی پارٹی کے کھاتے میں چلا گیا تھا، لیکن ان نتیجوں نے ظاہر کردیا ہے کہ ضمنی چناؤ میں اس کا کھویا ہوا مینڈیٹ ایک بار پھر سے واپس لوٹنے لگا ہے۔ کانگریسی لیڈروں نے پچھلے کچھ مہینوں سرگرم سیاست کی ہے اور کئی اشوز پر تحریک و مظاہرے کرکے اپنی موجودگی درج کرائی۔ اسی کا نتیجہ سامنے آیا ہے۔ پارٹی کیلئے یہ نتیجہ اگلے سال ہونے والے ایم سی ڈی چناؤ میں اس کو سنجیونی فراہم کریں گے۔کانگریس 2007 کے بعد سے میونسپل کارپوریشن کے اقتدار سے دور ہے۔ اس دوران دہلی میں اس کی سرکار ضرور رہی لیکن 2013ء میں یہاں سے بھی اس کی رخصتی ہوگئی۔ 2015 اسمبلی چناؤ میں تو اس کا پورا صفایا ہی ہوگیا اور اسمبلی میں ایک بھی کانگریسی ممبر نہیں ہے۔ اس کا روایتی ووٹ بینک عام آدمی پارٹی کے خیمے میں چلا گیا اس لئے اس ضمنی چناؤ میں اس کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ پارٹی نے تو بس اپنا کھویا ہوا مینڈیٹ پانے کی لڑائی لڑی تھی۔ 
ضمنی چناؤ میں کانگریس پارٹی کو 4 سیٹیں ملی ہیں اور اس کو24.8فیصد ووٹ ملا ہے۔ اب بات کرتے ہیں عام آدمی پارٹی کی۔ اس کے لئے یہ نتیجہ چونکانے والا ہی کہا جائے گا۔ یہ چناؤ پارٹی کے لڑنے والے کونسلر امیداوروں سے زیادہ ممبران اسمبلی کی اگنی پریکشا تھی۔ اس طرح سے آپ کے 67 میں سے12 ممبران کی ساکھ داؤں پر لگی ہوئی تھی۔ دراصل عام آدمی پارٹی نے اپنے کام کے طریق�ۂ کار سے اور اپنے برتاؤ کی وجہ سے اس ضمنی چناؤ کو آنے والے سال دہلی میں تینوں کارپوریشنوں کے چناؤ کا سیمی فائنل بنانے کی بے انتہا کوشش کی۔ کیونکہ عام آدمی پارٹی اس وقت دہلی میں برسراقتدار ہے اس لئے پارٹی ساکھ بچائے رکھنے کے لئے زیادہ سیٹوں پر جیت حاصل کرنا چاہتی تھی۔تبھی جاکر پارٹی اپنے حق میں ہوا بناتی۔ عاپ کو کم سے کم 12 سیٹوں پر جیتنے کی پوری امید تھی۔ پارٹی ذرائع کی مانیں تو پارٹی کے اندرونی سروے میں بھی عاپ کو13 میں سے12 سیٹیں جیتتی دکھائی پڑ رہی تھیں۔ ضمنی چناؤ سے پہلے عاپ کی دہلی پردیش انچارج کی دیکھ ریکھ میں ایک سروے کرایا گیا تھا اس میں عام لوگوں کی نبض ٹٹولنے کی کوشش کی گئی تھی۔ 
یہ چناؤ دہلی سرکار کے پچھلے سوا سال کے کام کاج کیا لٹمس ٹیسٹ بھی ایک طرح سے تھا۔ یہ کہنا بھی کچھ لوگوں کا ہے کہ اب عاپ سرکار سے جنتا کا بھروسہ اٹھنے لگا ہے اسی لئے پارٹی کو13 وارڈوں میں محض5 سیٹیں ہی جیتنے پر تسلی کرنی پڑی۔ عاپ کے اسمبلی اسپیکر اور اسمبلی ڈپٹی اسپیکر کے حلقوں سے لڑے امیدواروں کو ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ عاپ سرکار اور پارٹی کے نیتا بار بار دعوی کررہے تھے کہ یہ ضمنی چناؤ دہلی سرکار کے کارناموں پر لڑا جارہا ہے۔ کیونکہ حکومت نے بہت کام کئے ہیں اس لئے اس کی جیت یقینی ہے لیکن چناؤ کے نتیجے اس کے اس دعوے پر سوال ضرور کھڑے کریں گے۔ ہاں پارٹی یہ دعوی تو کرسکتی ہے کہ کارپوریشن میں اس کا کوئی بھی نمائندہ نہیں تھا اب 5 نمائندے تو پہنچ گئے ہیں۔ پارٹی نے ایم سی ڈی میں بھی اینٹری پا لی ہے۔
وزیر اعلی اروندکیجریوال نے کسی بھی وارڈ میں چناؤ کمپین نہیں کی لیکن ضمنی چناؤ کی نوٹیفکیشن جاری ہونے سے پہلے ان وارڈوں میں منعقدہ پروگراموں میں حصہ لیا تھا۔ وہیں نائب وزیر اعلی منیش سسودیا کے ساتھ ہی کمار وشواس ، سنجے سنگھ، دلیپ پانڈے سمیت دیگرلیڈر اور دہلی سرکار کے وزرا نے امیدواروں کے حق میں جم کر کمپین چلائی سوائے کانگریس کے دونوں بھاجپا اور عام آدمی پارٹی کے لئے یہ نتیجے خطرے کی گھنٹی ثابت ہوسکتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟