گھٹتی کھیتی کی زمین، 13ریاستوں میں خشک سالی

مرکزی وزیر زراعت ومملکت سنجیو بالیان نے حالی ہی میں راجیہ سبھا میں ایک پریشان کن جان کاری دی ہے انہوں نے بتایا ہے کہ دیش میں ہر برس اوسطا 30 ہزار ایکڑ کھیتی لائق زمین کم ہورہی ہے دیش میں کھیتی لائق زمین 2010-11 میں 18.201 کروڑ ہیکٹر سے معمولی سے گھٹ کر 2011-12 میں 18.196 کروڑ ہیکٹر رہ گئی ہے۔2012-13 میں یہ 18.195کروڑ ہیکٹر تھی ۔ واضح رہے دیش کی 64 فیصدی آبادی آج بھی زراعت سے متعلق کاموں سے جڑی ہوئی ہیں۔ تقریبا 1.1 کروڑ ہیکڑ زمین پر پچھلے پانچ برسوں میں کھیتی نہیں ہوئی ہے۔ زیادہ تر مقامات پر ایک ہی فصل کی جاتی ہیں ان پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے سبز انقلاب شروع کیا گیا ہے۔ بالیان نے بتایا ہے کل 2.6 کروڑ ہیکٹر زمین ایسی ہے جسے کھیتی کے لائق بنایا جاسکتا ہے۔ اسرائیل کی تمام چیلنجوں کے بعد بھی زراعت سیکٹر میں کافی ترقی کرنے کے اشو پر انہوں بتایا کہ زراعت سیکٹر میں سرمایہ کاری کے معاملے میں بھارت اس دیش سے کافی پیچھے ہے۔ اسرائیل میں سینچائی کے لئے پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال پر زور دیئے جانے کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ تاملناڈو، مہاراشٹر اور گجرات جیسے کئی ریاستوں میں اپنے یہاں اس سیکٹر میں کافی اچھا کام کیا ہے۔ دیش میں اوسطا ہر سال تیس ہزار ہیکٹر کھیتی لائق زمین کم ہونے اور تیرہ ریاستوں میں زبردست خشک سالی آنے کے درمیان ماہرین ماحولیات نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ خشک سالی سے نپٹنے کے لئے قلیل المدت پہل کرنے اور ملک بھر میں آبی وسائل، پرانے ریزروائر، کنوؤں کو پھر سے کام کے لائق بنائے جانے کی ضرورت ہے۔ حالانکہ کھیتی لائق زمین بے شک کم ہوئی ہے لیکن یہ تشفی کی بات یہ ہے کہ گراوٹ کے باوجود کل پیداوار میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ بھارت میں زراعت کی سب سے بڑی پریشانی سینیچائی کی ہے اور صرف پندرہ فیصد زمین کی کارآمد ہے۔ دیش کی تیرہ ریاستوں کی 306 دیہات میں خشک سالی کے حالات ہے اور اس سے4.2560 لوگ ہی متاثر ہے آبی سیکٹر کی ٹیلی رپورٹ کے مطابق زمین پر جتنا پانی دستیاب ہے اس میں سے 97.3 فیصد جراثیمی اثرات سے پاک ہے اور باقی 2.7 فیصد تازہ پانی ہے۔ اس 2.7 فیصد تازہ پانی میں سے 2.1 فیصد برف کی شکل میں اور 0.6 فیصد رقیق پانی کی شکل میں دستیاب ہے۔ اس رقیق پانی میں 98 فیصد زمینی اور 2فیصد سطحی پانی ہے ۔ ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ یہ سنگین صورت حال کااشارہ ہے کیونکہ زمین کے اندر آبی سطح مسلسل گھٹ رہی ہے اور دیش کے بڑھے جغرافیائی علاقے سے خشک سالی کی وجہ سے حالات مزید سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ ماہر ماحولیات ہما راوت کاکہنا ہے کہ ہمیں پانی کو وقت کے حساب سے خرچ کرنا چاہئے تاکہ ہمارے ہاتھ میں کچھ آئینی اختیارات آجائیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟