ایگزیکٹو میں عدلیہ کی بڑھتی مداخلت کا سوال

فائننس بل پر بدھ کے روز راجیہ سبھا میں وزیر خانہ ارون جیٹلی نے جوڈیشیری پر سرکاری کام کاج میں دخل اندازی کا سنگین الزام لگایا۔ انہوں نے عدلیہ کے دائرۂ اختیار پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا اس سے سرکار کوپریشانی ہورہی ہے۔ عدلیہ کی تلخ نکتہ چینی کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس نے ایگزیکٹو اور آئین سازیہ کے دائرہ اختیار پر قبضہ کیا ہے۔ ایسے میں اب سرکار کے پاس بجٹ بنانا اور ٹیکس لینے کا کام ہی رہ گیا ہے۔ عدلیہ کو یہ کام بھی لے لینا چاہئے۔ ارون جیٹلی نے جو کہا ہے اس پر بحث درکار ہے۔سورگیہ پی وی نرسمہا راؤ کے عہد میں ہی عدلیہ کی سرکاری کام کاج میں دخل اندازی شرو ع ہوگئی تھی۔ حکومتوں نے بھی اپنی مصیبت ٹالنے کیلئے معاملوں کو عدالتوں کے سپرد کردیا۔ پچھلے دنوں تو اتراکھنڈ میں فلور ٹیسٹ جیسا کام بھی سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہوا۔ ریزرویشن کے معاملوں میں بھی ریاستی حکومتوں نے سیاسی دباؤ کے چلتے غیر آئینی قدم سوچ سمجھ کر اٹھائے تاکہ عدالتیں اسے نامنظور نہ کردیں۔کیونکہ آئین ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ سیاست میں گراوٹ کی وجہ چاہے کوئی عدلیہ کی انتہائی سرگرمی پر جتنی پاورفل ہوجائے لیکن نظام حکومت تینوں حصوں کے توازن سے ہی چلتی ہے۔ ہمارے آئین سازوں نے تینوں کے درمیان ہر سطح پر کوئی موٹی سیما ریکھا تو نہیں کھینچی لیکن اس سے یہ توقع ضرور کی تھی کہ وہ اپنے دائرے تک ہی محدود رہے۔ جیٹلی نے کہا جس طرح سے عدلیہ کی مداخلت بڑھی ہے اس سے ایک دن سرکار کا کام صرف بجٹ بنانا رہ جائے گا اور سارا کام عدلیہ کے پاس چلا جائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ اس میں تھوڑی مشکل ہو لیکن عدلیہ ہر سیکٹر میں حکم دینے لگی ہے۔ یہ سچ ہے کہ ایگزیکٹو یا آئین سازیہ اگر عدلیہ کے دائرہ اختیار میں دخل دے تو اسے کوئی بھی مناسب نہیں ٹھہراسکتا، بلکہ اسے تانا شاہی کا ایک اثر مانا جائے گا۔ اسی طرح جمہوری نظام کے دوسرے میدانوں میں عدالتی دخل اندازی بھی صحیح نہیں مانی جاسکتی۔ حال میں سپریم کورٹ نے خوشک سالی پر بھی ایک راحت فنڈ بنانے کا حکم دیا۔ وزیر اعظم نے خود پہل کرتے ہوئے خوشک سالی سے متاثرہ ریاستوں کے وزرائے اعلی سے اپیل کرکے کہا کہ ان کے یہاں کیا ضرورت ہے، وہ کیا کرسکتے ہیں، وغیرہ معاملوں پر غور کیا ۔ خوشک سالی اور سیلاب سے حکومت کیسے نمپٹے، کیا کریں ، ایسی ہدایت دینے کا کام عدلیہ کا نہیں ہے۔
دوسری طرف ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو کہتے ہیں کہ کیونکہ سرکاریں اپنی ذمہ داریاں صحیح طریقے سے نہیں نبھاتیں اس لئے عدالتوں کو ایسے حکم دینے پڑتے ہیں تاکہ جنتا کو انصاف مل سکے۔ 1990 ء کی دہائی میں جب جوڈیشیری کی سرگرمی کا دور شروع ہوا تو یہ تھوڑا فائدہ مند لگتا تھا۔ آہستہ آہستہ ایسا لگتا ہے کہ مان لو جوڈیشیری واقعی باقی دوسرے دونوں حصوں کے اختیارات اور فرائض دونوں پر قبضہ کررہی ہو۔ کچھ ایسے معاملے ہوتے ہیں جو ایگزیکٹو یا آئین سازیہ سے بھی واسطہ رکھتے ہیں اور عدلیہ سے بھی مگر کسی کے بنیادی اختیارات کی خلاف ورزی ہورہی ہے یا کسی قانون کی تشریح کی ضرورت ہو، تو اس معاملے کو عدالت لے جانا اور اس پر سماعت ہونا فطری اور مناسب ہے لیکن اگر پالیسی سازی و ایڈمنسٹریٹو سیکٹر میں عدالتوں کا دخل ہوتا ہے تو وہ ایک غلط مثال قائم ہوتی ہے۔ کوشش دونوں طرف سے ہونی چاہئے۔ عدالتوں کو سمجھنا ہوگا کہ وہ دیش کے ہر مسئلے کا ازالہ کرنے یا کروانے میں کامیاب نہیں ہوسکتیں۔ ساتھ ہی آئین سازیہ۔ ایگزیکٹو اپنے رول اس طرح نبھائیں کہ عام حالات میں عدلیہ کو مداخلت کرنے کا موقعہ نہ ملے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟