اظہار رائے کی آزادی کا حق لامحدود نہیں

ہتک عزت کے معاملے میں جیل کی سزا ختم نہیں ہوگی۔ سپریم کورٹ نے ہتک عزت سے جڑے قانون کی سزا کی شقات کے آئینی جوازکی جمعہ کے روز تصدیق کردی۔ دیش کی عدالت عظمی نے کہا اظہار رائے کی آزادی کا حق کوئی لا محدود حق نہیں ہے۔ عدالت نے کانگریس نائب صدر راہل گاندھی، دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال، بھاجپا نیتا سبرامنیم سوامی اور دیگر کی طرف سے دائر عرضیوں کی ایک سیریز پر یہ حکم صادر کیا۔ جسٹس دیپک مشرا اور جسٹس پرفل سی پنتھ کی ڈویژن بنچ نے کہ ہم نے مانا ہے سزا کی سہولت آئینی طور سے جائز ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کا حق کوئی لامحدود حق ہیں ہے۔ بنچ نے دیش بھر کے جج صاحبان کو ہدایت دی ہے کہ وہ ہتک عزت کی ذاتی شکایتوں پر سمن جاری کرنے پر انتہائی چوکسی برتیں۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ مجرمانہ ہتک عزت سے وابستہ آئی پی سی کی دفعہ 499 اور 500 اور آئی پی سی سیکشن کی دفعہ119 آئینی طور سے صحیح ہے۔ قریب ڈیڑھ سو سال پرانے اس ہتک عزت قانون کو صحیح ٹھہرانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر فطری طور پر رد عمل ہونا ہی تھا۔ دنیا کے زیادہ تر ممالک میں ہتک عزت کے معاملے کو دیوانی معاملے کی طرح دیکھا جاتا ہے اس لئے امید کی جارہی تھی کہ بھارت کی عدالت عظمی بھی دنیا بھر میں یکایک قبول ہوتے جارہے نکتہ نظر اور جمہوری تقاضوں کو ذہن میں رکھ کر ہتک عزت قانون کے آئینی جواز پر غور کرے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔غور طلب ہے کہ بھارت میں ہتک عزت ایک کرائم کا معاملہ ہے جس میں الزام ثابت ہونے پر دو سال کی سزا ہوسکتی ہے اس کے علاوہ جرمانہ بھی بھرنا پڑ سکتا ہے۔ اس قانون کے آئینی جواز کو چنوتی دینے میں کانگریس نائب صدر راہل گاندھی، عام آدمی پارٹی کے کنوینر اروند کیجریوال اور بھاجپا نیتا سبرامنیم سوامی بھی تھے۔ یہ تینوں ہتک عزت کے کسی نہ کسی معاملے میں ملزم ہیں اس لئے متعلقہ قانون کو چیلنج دینے میں ان کی شخصی دلچسپی رہی ہوگی۔دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اس قانون کو چیلنج ایسے سیاستدانوں اور صحافیوں نے دیا تھا جن میں سے کچھ کا کام بھی دوسروں پر مسلسل الزام لگا کر کٹہرے میں کھڑا کرنا ہے۔ حالانکہ حالت اس کے برعکس بھی ہے اور اس وقت سماج میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوگئے ہیں جن کا کام کسی بھی سیاسی بیان یا صحافت پر و تبصرے پر ہتک عزت کا مقدمہ دائر کردینا ہے۔ یہ کام ایک اچانک ٹھیس اور اس کے ازالے کے لئے نہیں بلکہ ایک دھندے کے طور پر کئے جاتے ہیں۔ موجودہ ہتک عزت قانون حکومتوں ، طاقتور لیڈروں اور کرپٹ افسروں و بدعنوان صنعتکاروں کو ہی راس آتا ہے جنہیں تنقیدوں اور انکشافات سے اپنے ملے کام کا خوف ستاتا ہے۔ دوسری طرح اس قانون نے کرپشن کے خلاف لڑنے والے سیاسی سماجی رضاکار اور صحافیوں کے کام کو غیر ضروری طور سے بہت خطرے بھرا بنا رکھا ہے۔ اگر بات بات پر سیاستداں کی زبان تھام لی جائے گی یا صحافی کے قلم اور کیمرہ نشانے پر لیا جائے گا یا ہمیشہ کوئی نہ کوئی اسکینڈل اچھالا جاتا رہے گا تو نہ تو ہیلتھی ماحول بن پائے گا اور نہ ہی کسی کی ساکھ محفوظ بچ پائے گی۔ اظہار رائے کی آزادی ہونی چاہئے اور اس سے دکھی لوگوں کو عدالت کی پناہ میں جانے کا حق بھی ہونا چاہئے۔ اگر عدلیہ سے سخت کارروائی کی مانگ کا حق نہیں رہے گا تو اس کے جواب میں تشدد ہی واحد ایک راستہ بچے گا اور وہ جمہوریت کیلئے اور بھی خطرناک ہوگا لیکن پارلیمنٹ چاہے تو اس قانون کی جوازیت یا اس کی شقات پر نظرثانی کی پہل کرسکتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟