ایک بدنصیب پاکستانی باپ کا درد

اودھم پور حملے میں زندہ پکڑے گئے لشکر طیبہ کے دہشت گرد محمد نوید عثمان عرف قاسم کو اپنی عادت کے مطابق اپنا ماننے سے انکار کرنے والے پاکستان کو فوراً ہی منہ کی کھانی پڑی جب پاکستان کے ہی ایک شخص نے سامنے آکر خود کو قاسم کا والد بتادیا۔پاپ کا گڑھاپھوٹتا ہے تو کرتوت کا لیکھا جوکھا اپنے آپ باہر آجاتا ہے۔ بھلے ہی اسے روکنے کیلئے لاکھ چالبازیاں چلیں جائیں۔ محمد نوید عثمان عرف قاسم کو پاکستان پہچاننے تک سے انکار کررہا تھا کہ خود اس کے باپ نے بیٹے کی شناخت کرلی۔ میڈیا سے بات چیت میں پاکستانی باشندے محمد یعقوب نے کہا کہ وہ حملہ آور قاسم کا بدنصیب باپ ہے۔ خیال رہے کہ 2008 کے ممبئی حملے کے دوران زندہ پکڑے گئے آتنکی اجمل قصاب کو بھی اسی طرح پاکستان نے اپنا شہری ماننے سے انکار کردیا تھا لیکن میڈیا میں اس کے پریوار کے سامنے آنے کے بعد اسے رخ بدلنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ بدقسمتی دیکھئے کہ باپ اس دیش سے اپنے نالائق بیٹے کو بچانے کی فریاد کررہا ہے جہاں وہ بے قصوروں کے خون کی ہولی کھیلنے پہنچا تھا۔ محمد یعقوب نے کہا کہ لشکرطیبہ کے دہشت گرد چاہتے تھے کہ میرا بیٹا (قاسم) مارا جائے اور زندہ نہ پکڑا جائے ۔ مگر اب ہماری جان کو خطرہ ہے ہمیں مار دیا جائے گا۔ میں بدنصیب باپ ہوں ۔ لشکر اور پاکستانی فوج ہمارے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ وہیں اس سے پہلے پاکستان کے محکمہ خارجہ کے ترجمان سید قا زی خلیل اللہ نے دہشت گرد کو پکڑے جانے پر کہا کہ ہم نے میڈیا میں ایسی رپورٹ دیکھی ہے اور میں اس مسئلے پر کوئی رائے زنی نہیں کروں گا۔ پاکستانی فوج اور دہشت گرد تنظیم ثبوت مٹانے کے نام پر کسی حد تک جاسکتے ہیں۔ ہم نے کارگل میں سینکڑوں کی تعداد میں ہلاک اپنی ہی فوج کے جوانوں کوا پنانے سے انکار کر اس نے ان بدقسمتوں کو جب اپنے دیش کی مٹی نصیب نہیں ہونے دی۔ ممبئی میں زندہ پکڑے گئے اجمل قصاب کو جب وہ پختہ ثبوتوں کی روشنی میں بھی پہچان نہیں سکا تب اس معاملے میں ہی سچ کیوں قبولے گا؟ سرکار کو تو چھوڑیئے پاک میڈیا تک نے رد عمل دینے سے بھی انکار کردیا۔نوید عثمان عرف قاسم کو زندہ پکڑے جانے کو لیکر جب ہندوستانی چینلوں اور اخبارات نے اس بارے میں سوال داغے تو انہوں نے جواب دینے کے بجائے فون ہی رکھ دیا۔ وہیں کچھ صحافیوں نے تو فون سننا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ پاکستان کے کچھ ترقی پسند خیال صحافیوں نے خود اس بات کو تسلیم کیا کہ قاسم کا پاکستان سے رشتہ کوئی بھی قبول نہیں کرے گا۔ پاکستان کے مشہور اخبار ’حفیظ ‘ سے پوچھا گیا کہ پاک میڈیا میں زندہ پکڑے گئے دہشت گرد کی خبر کو ترجیح نہیں دی گئی تو انہوں نے صاف الفاظ میں کہا یہاں تو خاموشی چھائی ہوئی ہے اور آپ کسی سے بات کریں گے تو لوگ یہی کہیں گے کہ ضرور اس میں بھارت کی کوئی سازش رہی ہوگی۔ ایک اور بڑے صحافی احتشام الحق نے کہا کہ چھوڑیئے بھی ان باتوں کو لیکن سب سے بڑی بدقسمتی تو یہ ہے کہ جب بھی بات چیت کی پہل ہوتی ہے تو کوئی نہ کوئی مسئلہ آ کھڑا ہوتا ہے۔ رکاوٹ کے لئے ہمیں بھی پاکستان پر تہمت لگانے اور دھمکیا ں دینے سے وقت ضائع کرنے کی جگہ اپنے اقدامات پر مرکوز ہونا چاہئے۔ زندہ گرفتار اس دہشت گرد سے ایک کے بعد ایک سنسنی خیز معلومات مل رہی ہیں جن کا اگر بھارت ٹھیک استعمال کرے تو پاکستان تمام دنیا کے سامنے بے نقاب ہوجائے گا۔ پاک فوج اور ان جہادی تنظیموں کو لگتا ہے کہ اب نشانہ جموں اور پنجاب بن چکا ہے۔ جموں پٹھانکوٹ ہائی وے پر اسی سال بہت سے حملے ہوچکے ہیں۔ جموں و کشمیر کو دیش کی سرزمیں سے جوڑنے والی اس اکلوتی لائف لائن پر فوج کے درجنوں کیمپ اور چھاؤنیاں ہیں۔ اس کے ارد گرد بسنے والی آبادی بنیادی طور پر ہندو ہے۔ امرناتھ یاترا پر نکلنے والے تیرتھ یاتریوں کا جتھا بھی اسی شاہراہ سے گزرتا ہے۔ دہشت گرد کو زندہ پکڑنے کے بعد یہ پتہ چلا کہ وہ ڈیڑھ مہینے سے کشمیر میں رہ رہا تھا۔مطلب صاف ہے کہ ہمارے دیش میں ان جہادیوں کے کئی ہمدرد بیٹھے ہیں جو ہر طرح سے ان کی مدد کرتے ہیں۔ آستین کے ان سانپوں کو پہچاننا اور قابو کرنا ہمارے لئے چنوتی ہے۔ محمد نوید عرف قاسم کے والد پاکستانی باشندے محمد یعقوب کی خطرناک حالت سمجھی جاسکتی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاک فوج اور لشکر طیبہ کسی بھی حد تک جا سکتی ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟