سنتھارا پر روک آستھا اور دھرم میں مداخلت ہے

سنتھارا جین سماج کی ہزاروں سال پرانی پرتھا ہے۔ اس میں موت کے قریب ہونے پر منی برت رکھ لیتے ہیں اور کھانا پینا چھوڑ دیتے ہیں اسی حالت میں آہستہ آہستہ ان کی موت ہوجاتی ہے۔ اسے سلیکھنابھی کہا جاتا ہے۔ راجستھان ہائی کورٹ نے گذشتہ دنوں ایک بڑا فیصلہ سنایا ہے۔ جین دھرم میں موت کو اپنانے کی سینکڑوں سال پرانی سنتھارا پرتھا پر روک لگا دی ہے۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ کسی کا بھی کھانا پینا چھوڑ کر جان تیاگنا خود کشی ہی ہے۔ ایسا کرنے والوں پر دفعہ309 کے تحت خودکشی کا مقدمہ درج ہوگا۔ سنتھارا کے لئے اکسانے والوں کے خلاف دفعہ306 کے تحت کارروائی ہوگی۔ اس کا کوئی ریکارڈ تو نہیں ہے لیکن جین انجمنوں کے مطابق ہر سال 200 سے300 سے زیادہ لوگ سنتھارا کے تحت موت کو گلے لگا تھے۔ اکیلے راجستھان میں ہی یہ اعدادو شمار 100سے زیادہ ہے۔ گجرات اورمدھیہ پردیش میں بھی اس پرتھا کا اثر ہے۔ یہ معاملہ9 سال سے راجستھان ہائی کورٹ میں چل رہا تھا۔ وکیل نکھل سونی نے سال2006 میں سنتھارا پر روک لگانے کیلئے عرضی دائر کی تھی۔ اس میں کہا گیا تھا کہ جس طرح ستی پرتھا خودکشی ہے اسی طرح سنتھارا بھی خودکشی کی ایک قسم ہے۔ راجستھان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سنیل ابوانی اور جسٹس اجیت سنگھ کی بنچ نے اس سال 23 اپریل کو سماعت پوری کرلی تھی۔ فیصلہ اب آیا ہے۔ اسی کے ساتھ ستی پرتھا کے جیسے ہی سنتھارا بھی جرم کے زمرے میں آگئی ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ سنتھارا خودکشی ہے اور اسے دھارمک آستھا کا نام دے دیا گیا ہے۔ جبکہ آستھا کی قانون میں کوئی جگہ نہیں اس لئے اس پرتھا پرروک لگے جبکہ جین سماج کا کہنا ہے کہ یہ خودکشی نہیں ہے۔ جین روایت کے مطابق یہ پرتھا آتما کو پوتر کرنے کیلئے انسان کی آخری تپسیا ہے اسے منیوں کے لئے ضروری کہا گیا ہے۔ راجستھان ہائی کورٹ کے اس فیصلے کی جین سماج میں بھاری مخالفت ہورہی ہے۔ آچاریہ منی لوکیش نے بتایا کہ خودکشی کشیدگی اور لاچاری کی صورت میں کی جاتی ہے جبکہ سنتھارا آستھا کا ایک اشو ہے۔ جین سنت تروجا ساگر کا کہنا ہے کہ دیش بھر میں اس کی مخالفت کی جائے گی وہیں کچھ جین تنظیمیں فیصلے کو دھارمک دائرے میں دخل مان کر سپریم کورٹ میں اس کو چیلنج کرنے کی بات کررہی ہیں۔دگمبر جین منی نے رائے زنی کی: آج سنستھارا کو کل دگمبر مدرا پر بھی روک لگا دے گا۔ ہم عدالت کا سنمان کرتے ہیں لیکن وہاں بیٹھے لوگوں کو فیصلہ لینے سے پہلے سوچنا چاہئے تھا۔ ستی اور سنتھارا کو ایک ماننا غلط ہے۔ سنتھارا کی کارروائی 12 سال تک چلتی ہے۔ونوبابھاوے نے بھی سنتھارا کیا تھا انہوں نے کہا تھا کہ میں زندگی گیتا کی طرح اور موت مہاویر کی طرح مانتا ہوں۔ عدالت نے اسے خودکشی سمجھ کر غلطی ہے۔ یہ آزاد بھارت کا سب سے غلام فیصلہ ہے۔ شویتمبور جین منی رشی وجے مہاراج کا کہنا ہے کہ یہ دھارمک معاملوں میں کورٹ کی مداخلت ہے۔ سنتھارا کی اجازت مہاویر سوامی نے دی تھی۔ مرنے سے کسی کو کون بچا پایا ہے ہم جین منیوں سے متفق ہیں ہماری بھی رائے میں عدالتوں کو دھارمک اور آستھا کے معاملوں میں مداخلت کرنے سے بچنا چاہئے۔ آستھا کو چنوتی نہیں دی جاسکتی۔ امیدہے کہ عزت مآب سپریم کورٹ جین سماج کہ دلائل پر سنجیدگی سے غور کرکے اس میں اصلاح کرے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟