ہردا ریل حادثہ ریلوے کیلئے سبق بھی سوال بھی

منگلوار رات مدھیہ پردیش کے ہردا ریلوے اسیشن کے پاس اٹارسی ۔ کھنڈوا سیکٹر کے پاس دو لمبی دوری کی ریل گاڑیوں کی کئی بوگیاں ایک ساتھ پلٹ گئیں۔ اس سنگین حادثے میں 30 سے زیادہ لوگوں کی موت ہوگئی، کئی گھائل ہیں اور کچھ کے بارے میں اب تک کوئی جانکاری نہیں ہے۔ وزیر ریل سریش پربھو نے قدرتی آفت کو الزام دے کر اپنے محکمے کو بچانے کی کوشش کی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ جس انداز سے ندی کے پل پر یہ حادثہ ہوا ہے اس میں اچانک باڑھ آگئی جس سے پٹریوں کی بنیاد ہی بہہ گئی۔ ذرائع کے مطابق ہردا اور آس پاس کے علاقوں میں گزشتہ دو دن سے بھاری بارش ہورہی تھی، ریلوے بھی یہ دیکھ رہا تھا مگر اس نے ٹرینوں کی آمدورفت کو کنٹرول نہیں کیا۔ جہاں ٹرین حادثہ ہوا اس علاقے میں پانی بھرا ہونے کی وجہ سے پٹریوں کے آس پاس کی مٹی کٹ گئی تھی جس سے پٹریاں کمزور ہوگئیں۔ بارش کی وجہ سے پانی کا بہاؤ تیز ہونے پر پلیا کے آس پاس کی مٹی کٹنے سے دونوں ٹرینیں حادثے کا شکار ہوگئیں۔اگر مقامی ریل ملازمین نے دن میں معائنہ کیا ہوتا تو شاید حادثہ نہ ہوتا۔ حادثے کی جانچ 8 منٹ کے واقعات پر ٹکی ہے۔ ابھی تونہیں لیکن جانچ میں اس کا خلاصہ ضرور ہوگا کہ 8 منٹ میں اتنا پانی پل اور پٹری پر کیسے آگیا؟ اگر ایسا ہوا ہوتا تو کیا پانی کے بہاؤ کو سہنے کی صلاحیت پل اور پٹری کے لئے بنائے گئے ارتھ ورک میں نہیں تھی جس سے وہ اسے سہہ سکے۔ اس میں کہیں ارتھ ورک کو لیکر انجینئرنگ طور پر بھول تو نہیں ہوئی ہے؟ ریلوے کا کہنا ہے کہ 8 منٹ پہلے کھرکھیا و میٹنگی اسٹیشن کے درمیان پل پر بنے ریل پٹری سے دو ٹرینیں گزری تھیں۔ ان پر دونوں ٹرینوں کے پائلٹوں اور گارڈوں کو یہ احساس بھی نہیں ہوا کہ پل اور پٹری میں کوئی خامی ہے لیکن8 منٹ میں پٹری پر اتنا پانی آگیا کہ کامائنی ایکسپریس اور جنتا ایکسپریس کے پٹری سے اتر گئے؟ اس حادثے کے لئے صرف بارش اور باڑھ کو الزام دینا اپنی ذمہ داری سے بچنے کی کوشش ہے۔ ریلوے بورڈ کے چیئرمین کا یہ بیان بھی طفلانہ لگتا ہے کہ حادثے سے کچھ منٹ پہلے ہی دو ٹرنیں اس لائن سے گزری تھیں لہٰذا اس کے لئے ریلوے کو الزام نہیں دیا جاسکتا۔ اگر پٹریاں بہہ گئی تھیں تو اس کا مطلب ہے کہ تیز بارش کی وجہ سے ریل ٹریک کمزور پڑ گیا تھا اور ظاہر ہے یہ ایک دن میں نہیں ہوا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ پٹریوں کے رکھ رکھاؤ کی ذمہ داری کس کی ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ دیش کے 65 ہزار کلو میٹر لمبے ریلوے نیٹ ورک کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ نئی نئی ٹرینیں چلانے کی جگہ اگر موجودہ ریلوے نیٹ ورک پر دھیان دیا جائے تو بہتر ہوگا۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ریلوے کی حالت سدھارنے کیلئے کوششیں نہیں کی گئی ہیں۔ راکیش موہن، انل کاکوتکر ، سیم پترودا اور ای شری دھن جیسے ماہرین کی لیڈر شپ میں انیک کمیٹیاں نہ جانے کتنے سجھاؤ دے چکی ہیں۔اگر ان میں سے آدھے پر بھی عمل ہوجائے تو بھی ریلوے اور ریل مسافروں کا بھلا ہوجائے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!