عدلیہ کی حفاظت ہر حال میں کی جائے

یہ خبرانتہائی تشویش ناک ہے کہ یعقوب میمن کی پھانسی کی توثیق کرنے والے سپریم کورٹ کے جج جسٹس دیپک مشرا کو دھمکی بھرا خط ملا ہے۔ خط لال روشنائی سے لکھا گیا ہے اور خط میں کسی بھی تنظیم کا نام تو نہیں لکھا ہوا لیکن ہم اسے ہلکے سے نہیں لے سکتے۔ اگر یہ خط کسی نے شرارت میں نہیں لکھا تو جسٹس مشرا کی سکیورٹی بڑھانے کے علاوہ اس معاملے کی سنجیدگی سے چھان بین کی ضرورت ہے۔ بھارت میں شاید ہی پہلے کبھی یہ سننے میں آیا ہوکہ سپریم کورٹ کے کسی جسٹس کواس طرح کی دھمکی ملی ہو۔ خط میں بہت ہی متوازن زبان کا استعمال کرنے کیساتھ گالی گلوچ یا نازیبہ زبان کا استعمال نہیں کیا گیا۔ دہلی پولیس کے سینئر اسپیشل پولیس کمشنر (لا اینڈ آرڈر) دیپک مشرا نے بتایا کہ جسٹس کو بلٹ پروف کار مہیا کرادی گئی ہے۔ بنچ کے دو دیگر ججوں کی بھی سکیورٹی بڑھادی گئی ہے۔ نئی دہلی ضلع کے ایک سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ خط بہت ہی ٹوٹی پھوٹی ہندی میں لکھا گیا ہے۔ خط کو دیکھنے سے لگ رہا ہے کہ لکھنے والا بہت کم پڑھا لکھا ہے یا جان بوجھ کر سیدھے ہاتھ سے لکھنے والے شخص نے الٹے ہاتھ سے لکھا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ کتنی بھی سکیورٹی لے لیں تمہیں مار دیں گے۔ ہمارے آدمی کئی دن پہلے دہلی آچکے ہیں، جو حال ہی میں ان کے بھائی جان یعقوب میمن کا ہوا ہے اس سے زیادہ برا حال تمہارا کریں گے۔ خط کے آخر میں تمہارا دشمن لکھا ہوا ہے۔ خط میں جسٹس دیپک مشرا کا نام لکھا ہوا ہے۔ پنجاب میں جب دہشت گردی کا زور تھا تب مقامی ججوں کو دہشت گردوں سے دھمکیاں ملنے کی کچھ خبریں آئیں تھیں تب خالصتان حمایتی آتنکی عدلیہ ، انتظامیہ اور پریس کے لوگوں کو اکثر دھمکاتے رہتے تھے۔ اسے سنجیدگی سے لینا اس لئے بھی ضروری ہے کہ ایسا سلسلہ پھر سے نہ شروع ہوجائے۔ اس خط کو سنجیدگی سے اس لئے بھی لیا جانا چاہئے کیونکہ یہ دھمکی ان لوگوں کی طرف سے دی گئی ہے جو 22 سال پہلے ممبئی میں قتل عام مچا چکے ہیں اور آج بھی ہندوستان کے خلاف جنگ چھیڑنے جیسی کارروائی میں آگے ہیں۔ وہ ایسا اس لئے بھی کرپا رہے ہیں کیونکہ ان کی پیٹ پر پاک فوج آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے۔ داؤد ابراہیم اور ٹائیگر میمن آج بھی پاکستان کی پناہ میں ہے جبکہ حال ہی میں پاکستان نے بھارت مخالفت دہشت گردانہ کارروائیاں خاصی تیز کردی ہیں۔ چیف جسٹس ایم ایل دوت نے کہا ہے کہ جج ایسی دھمکیوں سے بے خوف رہتے ہوئے اپنا کام کرتے رہے ہیں۔ بیشک ماضی گذشتہ کی طرح مستقبل میں بھی دہشت گردوں اور خونخوار جرائم پیشہ کے خلاف فیصلہ دیتے وقت ہندوستانی عدلیہ مکمل انصاف کرکے اونچے حوصلے کا ثبوت دیتی رہے گی مگر بھارت اپنی عدلیہ پر ناپاک ارادوں کی چھایا تک نہیں پڑنے دے گا۔ اس لئے ہماری درخواست ہے کہ نہ صرف جسٹس دیپک مشرا بلکہ پوری سپریم کورٹ اور یعقوب میمن کی سماعت سے وابستہ رہے ہائی کورٹ و ٹاڈا کورٹ کے جج صاحبان و وکیلوں اور گواہوں کو بھی سکیورٹی مہیا کرانی چاہئے۔ وقت یہ دکھانے کا ہے کہ بھارت نہ تو دہشت گردی سے ڈرے گا اور نہ ہی ان بزدلوں کی گیدڑ بھبکیوں سے۔ ہم اپنے دیش و عدلیہ کی حفاظت کرنے میں پوری طرح اہل ہیں اور یہ دہشت گرد اپنے منصوبوں میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ ساتھ ساتھ یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ غیر جانبدارانہ انصاف بھی تبھی ممکن ہوسکے گا جب اس سے وابستہ سبھی فریق اپنے آپ کو محفوظ محسوس کریں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟