یعقوب کی پھانسی کور کرنے پر 3 چینلوں کو نوٹس
ممبئی دھماکوں کے قصوروار یعقوب میمن کو پھانسی سے وابستہ خبروں کے مقابلے میں پیچھے چھوڑنے کی دوڑ میں کئی ٹی وی چینلوں نے اپنی حدود پر توجہ نہیں دی۔ کم سے کم یہ سوچنا ہے کہ مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات وزارت 2 چینلوں نے تو انڈر ورلڈ ڈان چھوٹا شکیل کا فون پر انٹرویو لیا جبکہ ایک چینل نے میمن کے وکیل کے بیجا تبصرے ٹیلی کاسٹ کئے۔ اس سے ناخوش وزارت اطلاعات و نشریات نے 3 بڑے چینلوں کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا ہے۔ نوٹس میں پوچھا گیا ہے کیوں نہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے؟ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ ایسا پایا گیا ہے کہ ان نیوز چینلوں کی طرف سے کئے گئے کوریج میں ان سے یہ صاف کرنے کو کہا گیا ہے کہ ان کے کوریج میں پروگرام کوڈ کی دفعات کی خلاف ورزی کیسے کی۔ پروگرام کوڈ کی دفعات بتاتی ہیں کہ کسی فحاشی، ہت عزت، جان بوجھ کر غلط اور من گھڑت آدھی سچائی کو دکھانے والا کوئی پروگرام ٹیلی کاسٹ نہیں کیا جائے گا۔ کورٹ کی دیگر دفعات کے مطابق کوئی ایسا پروگرام ٹیلی کاسٹ نہیں کیا جانا چاہئے جس سے تشدد کو بڑھاوا ملنے کا اندیشہ ہو۔ یا اس میں کچھ بھی ہو جس سے قانون و سسٹم بگڑنے یا قوم مخالف جذبات کو تقویت ملنے کا خطرہ ہو۔ ایک دوسری دفعہ کے مطابق چینل ایسا نہیں دکھا سکتے جسے صدر و عدلیہ کے وقار پر کسی طرح کی ٹھیس لگنا محسوس ہوتا ہو۔ وزارت اطلاعات و نشریات کی الیکٹرانک میڈیا یونٹ مانیٹرنگ سینٹر(ای ایم ایم سی) قریب600 چینلوں کے مواد پر نگرانی کرتا ہے۔ جن چینلوں کو نوٹس بھیجا گیا ہے ان میں دو ایسے ہیں جنہوں نے مبینہ طور پر انڈرورلڈ ڈان چھوٹا شکیل کا فون پر انٹرویو ٹیلی کاسٹ کیا تھا۔ ایک دوسرے چینل نے مبینہ طور پر میمن کے وکیل کے بیان کو ٹیلی کاسٹ کیا تھا۔ بھارت میں نیوز چینلوں کے مدیروں کی بڑی تنظیم نے تینوں نیوز چینلوں کو جاری نوٹس پر تعجب ظاہر کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ بی ای اے نے اس اشو کو سرکار کے سامنے اٹھانے کا فیصلہ لیا ہے بی ای اے نے محض ٹیلیویژن نیٹ ورک (ترمیم قواعد2015) پر بھی تشویش جتائی ہے جس میں دہشت گردی انسداد مہم میں میڈیا کوریج کو آپریشن ختم ہونے تک صرف سرکار کی طرف سے دی گئی اطلاعات ٹیلی کاسٹ کرنے تک محدود کردیا گیا ہے۔ بی ای اے نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات سیدھے ٹیلی کاسٹ میں یقین نہیں رکھتا لیکن اس کا یہ خیال ہے کہ میڈیا کوریج کو سرکار کی طرف سے اطلاعات دئے جانے تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔6 صحافی انجمنوں نے اس کی مذمت کی ہے اور اسے میڈیا کو دھمکانے کی کوشش بتایا ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں