یادو سنگھ معاملے سے بوکھلاہٹ

نوئیڈا کی تین تین اتھارٹیوں کے انجینئر انچیف کے عہدے سے نوازے گئے اربوں روپے کی کالی کمائی اور گھپلے گھوٹالوں کے ملزم یادو سنگھ کے خلاف سی بی آئی جانچ کو لیکرا ترپردیش سرکار میں گھبراہٹ پائی جاتی ہے اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔اس اشو پر اسے سپریم کورٹ میں بھی لعنت ملامت جھیلنی پڑی، جس نے خود اس بے چینی کا سبب پوچھ لیا۔سپریم کورٹ نے جمعہ کو کسی دوسری ایجنسی کو معاملہ سونپنے کے لئے اترپردیش سرکار کی عرضی خارج کرتے ہوئے کہا کہ سی بی آئی جانچ پر تو آپ کو خوش ہونا چاہئے۔ چیف جسٹس ایل ایل دوت کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ ہماری نظر میں اس معاملے کی سی بی آئی جانچ ضروری ہے اس لئے مرکزی ایجنسی کو جانچ کرنے دیجئے۔ اترپردیش سرکار کی پیروی کررہے سینئر وکیل کپل سبل نے بتایا کہ یہ معاملہ ابھی جوڈیشیل کمیشن کے پاس ہے اس لئے ریاستی سرکار سی بی آئی جانچ کے حق میں قطعی نہیں ہے۔ انہوں نے الزامل لگایا کہ سی بی آئی جانچ کے ذریعے ریاستی حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ پڑھنے کے بعد ہمیں لگتا ہے کہ وہ پوری طرح صحیح ہے۔ جس وقت آپ وسیع جانچ سی بی آئی سے کروانے کی مانگ لے کر آئے تھے اس وقت ہم نے وہ معاملہ بھی اسی ایجنسی کو سونپا تھا۔ کپل سبل نے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ سی بی آئی ایک طوطی ہے۔ اس پر بنچ نے کہا ہم ایسا نہیں مانتے۔ سی بی آئی پر لوگوں کو یقین ہیں۔ آپ پریشان نہ ہوں ، یادو سنگھ فرار ہے ان کے بیرون ملک بھاگنے کا اندیشہ ہے۔ الزام ہے کہ یادو نے بیرونی ممالک میں دولت جمع کررکھی ہے اور اب اس کی لوکیشن بھی نہیں مل رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں سی بی آئی یادو سنگھ کے خلاف ریڈ کارنر نوٹس جاری کرسکتی ہے۔ یادو سنگھ کے معطل ہونے کے کچھ دن بعد سے ہی نہ تو پولیس کو اس کا ٹھیکانے کا پتہ ہے اور نہ ہی اس کے خاص ملنے جلنے والوں کو اس کا پتہ ہے۔ سی بی آئی کے ذریعے یادو کنبے کے خلاف دو مقدمے درج کر 16 ٹھیکانوں پر چھاپہ ماری کے دوران بھی کسی ٹیم کو کچھ نہیں ملا۔یادو سنگھ کی منقولہ جائیدادوں کی بحث بھلے ہی چل رہی ہو لیکن 10 اپریل 2015 کو یادو نے ہائی کورٹ میں جو حلف نامہ داخل کیا ہے اس میں اس کے خاص 1982 ء نوئیڈا اتھارٹی سے ملا 115 مربعہ میٹر کا ایک گھرہے۔ یادو کا دعوی ہے وہ کسی کرپشن میں شامل نہیں ہیں اور اس کی بیوی کے نام کسم گارمینٹ نام سے ایک دوکان ہے۔ اربوں روپے کا گھوٹالہ اجاگر ہونے کے بعد سے غائب یادو سنگھ کبھی مایاوتی کی آنکھ کے تارے رہے ہیں۔ شروعات میں تو سپا سرکار کی آنکھ کی کرکری بنے کے سی تیاگی کی شکایت پر یادو سنگھ معطل کیا گیا تھا۔ پھر راتوں رات سرگرم ہوئی انجینئر لابی نے پتہ نہیں کیسے اسے سپا کی گود میں بٹھانے میں کامیابی پائی؟ اس کے بعد یادو سنگھ کو مسٹر 30 پرسنٹ کی اپادھی سے نوازا گیا۔ یہ معمولی سطح کے انجینئر کا ملازم ایک ساتھ تین اتھارٹیوں کا انجینئر انچیف بنا دیا گیا پھر ٹھیکہ پتی میں کمیشن ، حصے داری کے علاوہ اس نے مبینہ طور پر فرضی کمپنیوں کے نام پر زمین کا جو دھندہ شروع کیا وہ اربوں تک جا پہنچا۔ اب جب عدالتوں کی سختی سے وہ گھر گیا ہے تو پردیش سرکار میں بے چینی ہورہی ہے۔ خود سپا چیف نے لکھنؤ میں بغیر نام لئے کہا کہ کانگریس کی طرح بھاجپا بھی سی بی آئی کا بیجا استعمال کررہی ہے اور وہ مخالفین کو پریشان کرنے میں لگی ہے اور انتہا توتب ہوگئی جب ریاستی سرکار سی بی آئی جانچ کی مخالفت کرنے سپریم کورٹ پہنچ گئی جہاں اس کی عرضی تو خارج ہوئی ہی ہے ساتھ ساتھ ڈانٹ اور پڑ گئی ۔ اگر صحیح معنی میں یادو سنگھ کی جانچ ہوئی تو یقینی طور سے کئی بڑی ہستیاں پھنسیں گی۔ اس سطح کا گھوٹالہ بغیر سیاسی سرپرستی کے ممکن نہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!