ویاپم گھوٹالے کی الجھتی گتھی! سپریم کورٹ میں معاملہ

مدھیہ پردیش کمرشل امتحان منڈل (ویاپم) کے داخلے اور بھرتی گھوٹالے کے دو اور ملزمان کی موت کو ریاستی سرکار بھلے ہی ایک فطری موت بتا رہی ہو لیکن اس سے وزیر اعلی شیو راج سنگھ چوہان کی مشکلیں بڑھتی جارہی ہیں۔ پردیش کے کمرشل کالجوں میں داخلہ امتحان ، پولیس اور جنگلاتی محافظ اور ناپ تول انسپکٹر سے لیکر ٹھیکہ ٹیچروں کی بھرتی امتحان کا انعقاد کرنے والے ویاپم کے گھوٹالے کی جانچ کررہی ایس آئی ٹی تک نے جبلپور ہائی کورٹ کے سامنے اعتراف کیا ہے کہ اب تک اس گھوٹالے سے وابستہ 23 گواہوں یا ملزمان کی اچانک موت ہوچکی ہے۔ کانگریس لیڈر دگوجے سنگھ نے اب سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ انہوں نے بڑی عدالت کی نگرانی میں معاملے کی سی بی آئی جانچ کرانے کی مانگ کی ہے اور سپریم کورٹ میں اس مسئلے پر عرضی دائر کی ہے۔ منگلوار کو دگوجے نے کہا کہ معاملے سے وابستہ کم سے کم 24 ملزمان اور گواہوں کی اب تک پراسرار حالات میں موت ہوجانے کے ساتھ یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے۔ کچھ رپورٹوں میں ایسی اموات کی تعداد40 تک پہنچنے کا دعوی کیا گیا ہے۔ کانگریس سکریٹری جنرل دگوجے سنگھ نے کہا کہ فی الحال گھوٹالے کی جانچ کررہی ریاستی پولیس کی اسپیشل تفتیشی ٹیم نے معاملے میں اس کے جواز اور پولیس سول سروس و عدلیہ کے سینئر افسران اور ساتھ ہی بھاجپا لیڈروں کے ملوث ہونے کے چلتے لاچاری دکھائی ہے۔ دگوجے نے کہا جس معاملے میں پردیش کے وزیر اعلی کا نام بھی شامل ہو، ریاستی سرکار کے تحت آنے والی کوئی ایجنسی جانچ نہیں کرسکتی اس لئے سی بی آئی جانچ ہونی چاہئے۔ یہ معاملہ کچھ کچھ اترپردیش کے قومی دیہی ہیلتھ مشن گھوٹالے کی راہ پر چلتا دکھائی دے رہا ہے، جس میں بھی کئی ملزمان اور گواہوں کی مشتبہ حالات میں موت ہوگئی تھی۔ ظاہر ہے اہم گواہوں اور ملزمان کی موت ہوجانے سے نہ صرف جانچ متاثر ہوسکتی ہے بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ اس بڑے نیٹورک کا خلاصہ بھی نہ ہوپائے جس کے ذریعے اسے انجام دیا جارہا تھا۔ مثلاً جن دو ملزمان کی ابھی موت ہوئی ہے، ان میں سے ایک 29 سالہ اسسٹنٹ پروفیسر نریندر سنگھ تومر کے پتا کا الزام ہے کہ ان کا بیٹا کچھ بڑے ناموں کو سامنے لانے والا تھا۔ یہ معاملہ حالانکہ دو سال پہلے اجاگر ہوا لیکن جانچ سے یہ حقائق سامنے آئے کہ پچھلے 7-8 برسوں کے دوران کم سے کم ایک ہزارلوگوں کی غلط طریقے سے یا تو نوکریوں میں بھرتی ہوئی یا انہیں میڈیکل یا ویٹنری کالجوں میں داخلہ دلایا گیا۔ یہ گھوٹالہ کتنا بڑا ہے اس کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس معاملے میں ایک سابق امتحان عملہ سمیت کئی افسران اور نیتاؤں کی گرفتار ہوچکی ہے۔ گورنر کے ایک ملزم بیٹے تک کی مشتبہ حالات میں موت ہوچکی ہے۔ بیشک یہ معاملہ بہت بڑا ہے جس میں قریب500 ملزمان اب بھی فرار ہیں لیکن متعین وقت پر طریقے سے اس کی جانچ پوری نہ ہوئی تو معاملہ الجھتا جائے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟