کیا دنیامیں پھر آسکتی ہے 1930 جیسی مندی

ریزرو بینک کے گورنر رگھو راجن ان اہم ماہر اقتصادیات میں سے ہیں جنہوں نے 2008 کی اقتصادی مندی کی آہٹ کو بھانپ لیا تھا۔ اس لئے موجودہ عالمی اقتصادی پس منظر پر ان کی اس وارننگ کو سنجیدگی سے لینا ہوگا کہ دنیا کی معیشت ایک بار پھر 1930 جیسی سنگین مندی کے دور میں پھنس سکتی ہے۔ انہوں نے دنیا بھر کے مرکزی بینکوں سے کہا کہ بحران سے نکلنے کیلئے نئے اقدام تلاشنے ہوں گے۔ لندن بزنس اسکول میں ان تقریر کو اس لئے بھی سنجیدگی سے لیاگیا ہے کہ ان کی تشویش کی وجہ ترقی پذیر ممالک کی افراط زر پالیسیاں ہیں جن کا خمیازہ سب کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔انہوں نے کہا حالانکہ بھارت میں حالات الگ ہیں جہاں آر بی آئی کو ابھی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کیلئے پالیسی ساز شرحوں میں کٹوتی کرنی ہے سال1929 میں ہوئی مہا مندی کا دور 1939-40 تک چلا تھا۔ مندی کا آغاز 29 اکتوبر 1929 میں امریکہ کے شیئر بازار میں گراوٹ سے ہوا تھا۔گراوٹ کاذہنی طور پر اتنا اثر پڑا کہ لوگوں کے اپنے خرچ میں 10 فیصدی کی کٹوتی کردی تھی جس سے مانگ میں بڑی گراوٹ آئی۔ اس دوران 5 ہزار بینک بند ہوگئے تھے۔ امریکہ میں اسی سال پڑے سوکھے نہیں ذراعتی پیداوار 60 فیصد تک گھٹا دی تھی۔ آہستہ آہستہ اس مہا مندی کا پوری دنیا پر گہرا اثر پڑا اور اس سے نکلنے میں کافی لمبا وقت لگا۔2008 کی مندی میں امریکہ یوروپ کے بینک دیوالیہ ہوئے تھے تو اس کے پیچھے یہی وجہ تھی کہ قرض لینے کے لئے بینکوں سے بے تحاشہ قرض لینے والوں کی دوڑ لگ گئی تھی۔ شکر ہے کہ اپنے بڑے قرض دینے کے ریزروبینک کے قواعد اب بھی کافی سخت ہیں اس لئے انہونی نہیں ہوئی۔ ویسے خدشہ بھی نہیں ہے لیکن صرف اس وجہ سے نہیں کہ راجن کی تشویش دراصل کرنسی کے گرنے کی کوشش کے اسباب بھی ہیں۔ کرنسی کے گھٹنے سے ایک دیش کو نقصان ہوتا ہے تو دوسرا اپنی برآمدات بڑھتا ہے۔ مجبوراً اسے بھی اس راستے پر چلنا پڑتا ہے۔ مہا مندی کے دور میں تب بھی بڑی معیشتوں میں اپنی کرنسیوں کو گھٹانے کی دوڑ لگی تھی۔ رگھو رام راجن کی آگاہی سچ ہوتی دکھائی پڑ رہی ہے۔ گریس کے وزیر اعظم ایلکسس نے پیر کو گریس کے سبھی بینکوں کو بند رکھنے کو کہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اے ٹی ایم مشینوں سے پیسہ نکالنے پر بھی پابندی لگادی گئی ہے۔ سرکار کا کہنا ہے کہ ہفتے بھر تک بینکوں میں کام کاج نہیں ہوگا۔ اس دوران کھاتہ ہولڈروں کو دن میں 60 یورو سے زیادہ نکالنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ لوگ اجازت کے پہلے اپنے پیسے کو دیش کے باہر نہیں بھیج سکیں گے۔ رگھو راجن کے نظریات کے برعکس آئی ایم ایف ریسرچ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ صرف کرنسی پالیسی آسان بنانے کو ہی مالیاتی عدم استحکام کیلئے قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ دنیا کے سامنے بڑے مسئلے مالیاتی سسٹم میں عدم استحکام کی حفاظت کے لئے موثر اور قواعد سسٹم کے سبب پیدا ہوا۔سوال تو یہ ہے کہ کرنسی پالیسی اور مالیاتی بازار کے ثالثوں کی نگرانی کے سسٹم کو کیسے چلایا جائے گا تاکہ مستقبل میں بحران دوبارہ نہ کھڑے ہوسکیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!