امام باڑوں پر لگے تالے کھلوانے کا تنازعہ

الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے آصفی امام باڑہ اور چھوٹا امام باڑے پر لگے تالوں پر سخت رخ اپنایا ہے۔ عدالت نے تالوں کو فوراً کھولنے کے احکامات دئے ہیں ساتھ ہی کہا ہے کہ ضلع مجسٹریٹ خود فوراً تالا کھولنے کا انتظام کریں۔ ایک مفاد عامہ کی عرضی پر سماعت کے دوران الہ آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ کوئی بھی شخص قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔ جسٹس ارون ٹنڈن اور جسٹس انل کمار کی بنچ نے کہا کہ جنتا کو تالالگانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اپنے حکم میں عدالت نے کہا لکھنؤ کے ضلع مجسٹریٹ امام باڑوں سے فوراً تالے کھلوائیں اوروہ خودیقینی کریں کہ یہ کام پورا ہو۔ حکم میں کہا گیا ہے کہ امام باڑے سیاحوں کیلئے اسی طرح کھلے رہنے چاہئیں جیسے تالا بندی سے پہلے تھے اس املاک کا انتظام کرنے والوں، ضلع مجسٹریٹ اور دیگر متعلقہ لوگوں کو یقینی کرنا ہوگا کہ امام باڑوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے۔ وہیں سیاحوں کو امام باڑے میں آنے جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہئے۔ اس سے پہلے مفاد عامہ کی عرضی پر ہائی کورٹ نے مولانا کلب جواد اور حسین آباد ٹرسٹ کو نوٹس جاری کرکے پوچھا تھا کہ انہوں نے کس اختیار یا حکم سے امام باڑوں پر تالے لگائے ہیں۔ جواب میں مولانا کلب جواد نے کہا تھا یہ تالا بندی پبلک نے کی ہے۔ لکھنؤ کے تاریخی امام باڑوں پر جڑے گئے تالے کھلوانے کے حکم کو نہ ماننے کے بڑے شیعہ مذہبی پیشوا مولانا کلب جواد کے اعلان کے بعد ضلع انتظامیہ اور آندولن چلا رہے شیعہ فرقے کے درمیان ڈیڈ لاک اور گہرا ہوگیا ہے۔ اترپردیش شیعہ سینٹرل وقف بورڈ کے چیئرمین وسیم رضوی کو ہٹائے جانے کو لیکر جاری تحریک کی رہنمائی کررہے بڑے شیعہ عالم مولانا کلب جواد نے ضلع انتظامیہ پر عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے اور احتجاج کے طور پر امام باڑوں پر ڈالے گئے تالے نہ کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کلب جواد نے امام باڑوں پر تالے نہ کھولنے سے توہین عدالت ہونے سے متعلق سوال پر کہا کہ وہ عدالت کا پورا احترام کرتے ہیں لیکن ان سے امام باڑوں کو پبلک املاک بتا کر گمراہ کیا گیا ہے جبکہ وہ عمارتیں مذہبی مقامات ہیں۔ انہوں نے کہا رہا سوال توہین عدالت کا تو یہ کارروائی پہلے تو لکھنؤ کے ضلع مجسٹریٹ راجیشور کے خلاف ہونی چاہئے جنہوں نے حیدر عباس کو امام باڑوں کی دیکھ بھال کرنے والے حسین آباد ٹرسٹ کا چیئرمین بنانے سمیت عدالت کے کئی احکامات کی اب تک تعمیل نہیں کی گئی ہے۔ کلب جواد نے کہا کہ ہندوستانی آثار قدیمہ سروے قانون میں امام باڑوں کے مذہبی پیشواؤں کو ہی ان کے کمپلیکس میں ہونے والی سرگرمیوں کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق ہے۔جسٹس ارون ٹنڈن اور انل کمار کی لی سیشن ڈویژن بنچ نے یہ حکم مسرت حسین کی عرضی پر دیا ہے۔ ریاستی شیعہ سینٹرل وقف بورڈ کے چیئرمین وسیم رضوی کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی مانگ کو لیکر شیعہ فرقے کے لوگوں نے مشہور امام باڑوں پر پانچ جون سے تالا لگا رکھا ہے۔ مولانا جواد نے رضوی کو ہٹانے کی مانگ کو لیکر تحریک رمضان کے بعد اور تیز تر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟