’’گے‘‘ یعنی ہم جنسی کو قانونی حیثیت دینے کی تیاری!

سماج میں ٹرانس جینڈر شادی کے اشو کو لیکر گھمسان مچا ہوا ہے۔ ہندوستانی آئین کی دفعہ377 یعنی ہم جنسی رشتوں کو جرائم کے زمرے میں رکھتی ہے۔ حالانکہ دنیا کے کئی ملکوں میں ’’گے‘‘ میرج کو تسلیم کرلیا گیا ہے اور اس کے مطابق اسے جرائم کے زمرے سے نکال دیا ہے۔ حال ہی میں امریکہ کی بڑی عدالت کے ذریعے اپنے دیش میں ہم جنسی شادی کو جائز ٹھہرایا ہے اور یہ پورے امریکہ میں قابل تسلیم ہوگیا ہے۔ آسٹریلیا میں بڑی اپوزیشن پارٹی لیبر پارٹی نے ہم جنس افراد میں شادی کو قانونی حیثیت دینے سے متعلق ایک ریزولوشن کو پارلیمنٹ میں پیش کردیا ہے۔ کنزرویٹو پارٹی سے وزیر اعظم ٹونی ایبٹ کے احتجاج کے باوجود لیبر پارٹی کے ریزولیوشن کو پارلیمنٹ میں پیش کرنا پڑا۔آئر لینڈ میں ایک ماہ پہلے ہوئے ریفرنڈم میں اس طرح کی روایتوں کو بھاری اکثریت کے ساتھ حمایت ملی جبکہ اس روایتی کیتھولک دیش میں دو دہائی پہلے تک ’گے‘ رشتوں کو لیکر کافی امتیاز برتا جاتا تھا ۔ ادھر ہمارے دیش میں آئینی وزیر سدانند گوڑا نے منگل کے روز کہا بھارت نے ’گے ‘ شادیوں کو جائز قرار دینے والے سپریم کورٹ کے فیصلے کو پلٹنے کا اشو ان کی وزارت کے سامنے زیرغور نہیں ہے۔ان کا یہ بیان امریکہ کی بڑی عدالت کے ذریعے اپنے دیش میں ’گے‘ شادیوں کو جائز ٹھہرانے کے بعد آیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس اشو پر ایک اخبار نے ان کے بیان کو غلط طریقے سے پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ اخبار نویس نے رضامندی ظاہر کی کہ اس اشو کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا۔ گوڑ نے مبینہ طور پر اخبار سے کہا کہ بھارت کی آئی پی سی کی دفعہ377 کو ختم کر سکتا ہے اور ’گے‘ شادیوں کو جائز قرار دینے پر غور کرسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب بھی یہ اشو آئے گا تب ہم صرف بحث کے بعد آگے جا سکتے ہیں۔ یہ بیحد حساس مدعا ہے اسے اتنی آسانی سے نہیں عمل میں لایا جاسکتا۔ سماج کی قومی دھارا سے ٹرانس جینڈر فرقے کو جوڑنے اور ان کے سماجی اختیارات سے وابستہ بل کو مرکزی سرکار پارلیمنٹ کے مانسون سیشن میں پیش کرسکتی ہے۔ یہ بات سماجی انصاف و تفویض اختیارات وزیر تھاور چند گہلوت نے کہی۔ ٹرانس جینڈر کے ایک پروگرام میں شامل ہونے آئے گہلوت نے کہا کہ ہمارے کلچر میں ہمیں امتیاز برتنا نہیں سکھایا جاتا۔ آنے والے سیشن میں ٹرانس جینڈر کیلئے تیار ہورہے بل کو لوک سبھا میں پیش کیا جائے گا۔ حالانکہ پچھلے سیشن میں گہلوت نے اس سے جڑے بل کو واپس لینے کی بات کہی تھی۔ ہمارا سماج اس طرح کی شادی پر بٹا ہواہے۔ کچھ لوگ اسے بیماری اور غیر فطری رشتے مانتے ہیں تو کچھ اس کو قبول کرنے کی وکالت کررہے ہیں۔ ایسے نازک معاملے میں مرکزی سرکار کو جلدی نہیں کرنی چاہئے۔ سبھی متعلقہ زیر غور دفعات کو سمجھنا ہوگا اور پھر اگر کوئی نتیجہ نکلتا ہے تو آگے بڑھنے پر غور ہوسکتا ہے۔ ویسے تو ’گے‘ میرج بھارت میں شروع ہوچکی ہیں چاہے وہ غیر قانونی، جائز ہوں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟