دہشت گردوں کو ناکام کرنے کیلئے 80 مساجد بند ہوں گی
برطانیہ نے شمالی افریقی دیش تیونس میں ایک ہوٹل پر جمعہ کو ہوئے دہشت گردانہ حملے کے بعد دیش میں ایسے ہی اور حملوں کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ اس حملے میں 39 لوگ مارے گئے تھے جس میں 15 برطانوی شہری تھے۔ ادھر فرانس، کویت اور تیونس کے بعد دہشت گردتنظیم اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) سنیچر کو برطانیہ کو دہلانے کے فراق میں تھی لیکن پولیس نے مسلح افواج ڈے پریڈ کے دوران دھماکے کی سازش کو ناکام کردیا ہے۔ لی ریایوے ریجمنٹ کے فوجیوں کی پریڈ دیکھنے آئے لوگوں کو نشانہ بنا کر پریشر کوکر بم کے ذریعے یہ حملہ کیا جانا تھا۔ 2003 میں بھی اس ریجمنٹ کے فوجیوں کو اسلامی کٹرپسندوں نے نشانہ بنایا تھا۔ جمعہ کو تیونس پر ہوئے دہشت گردانہ حملے کے بعد اگلے دن سنیچر کو یہاں کی حکومت نے دیش کی 80 مساجد بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انہیں ایک ہفتے کے اندر بند کردیا جائے گا یہ مساجد سرکاری کنٹرول کے باہر ہیں۔ وزیر اعظم حبیب الاشید نے کہا کہ ان مسجدوں میں زہر افشاں تقریریں کی جاتی ہیں اور تشدد بھڑکایا جاتا ہے۔ جمعہ کو تیونس کے سیاحتی مقامی سوس میں ہوئے آتنکی حملے میں 39 لوگ مارے گئے تھے ان میں کافی تعداد میں یوروپی شہری بھی تھے۔ حملے کی ذمہ داری آتنکی گروپ آئی ایس نے لی ہے۔ وزیر اعظم حبیب الاشید نے کہا کہ آئین کے خلاف کام کرنے والی پارٹیوں اور گروپوں پر بھی کارروائی ہوگی۔ اس درمیان برطانوی ٹور آپریٹروں تھامسن اور فرسٹ چوائس نے سیلانیوں کو تیونس سے نکلنے کے لئے 10 جہاز بھیجے ہیں ان سے2500 لوگوں کو بچاکر لایا جاسکے گا۔ دونوں آپریٹروں نے بھی کہا کہ مرنے والوں میں زیادہ تر ان کے گراہک تھے۔ تیونس کے جی ٹی پی کا 15.2 فیصدی حصہ سیاحت سے آتا ہے اور قریب13.2 فیصد ملازمتوں کے مواقع بھی سیاحتی سیکٹر سے جڑے ہیں۔ پچھلے سال تیونس میں آنے والے سیاحوں کی تعداد60 لاکھ تھی۔ جمعہ کو آئی ایس نے سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ساؤس کے ایک ایسے ہوٹل پر حملہ کیا جہاں یہ غیر ملکی سیاح ٹھہرے ہوئے تھے۔ انہوں نے تیونس کے معیشت پر چوٹ پہنچانے کے لئے ایسا مقام چنا جہاں سیاح ٹھہرتے ہیں تاکہ دیش کا ٹورازم متاثر ہو۔ دوسری طرف تیونس کے وزیر اعظم حبیب الاشید کی ہمت کی داد دینی ہوگی کہ انہوں نے 80 مساجد کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان مساجد سے کٹر پسندی کو اکسانے کیلئے تقریریں کی جاتی ہیں لیکن ایسا نہیں کہ ساری مساجد میں کٹر پسندی کا پروپگنڈہ ہوتا ہے لیکن کچھ مساجد میں نوجوانوں کو بھڑکانے کا کام کیا جاتا ہے یہ تلخ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن عوام اور مولویوں و کٹر پسندوں کے ڈر سے کوئی دیش ایسی مساجد پر کسی بھی طرح کی کارروائی کرنے سے کٹراتے ہیں۔ تیونس نے ہمت دکھائی ہے اگر وہ ان 80 مساجد کو بند کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو یہ کام ساری دنیا کے لئے ایک مثال ہوگی۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں