نقلی دوا کا زہر پھیلتا جارہا ہے

ایک سیکٹر ایسا ہے جس پر سرکار کو فوری توجہ دینا چاہئے یہ ہے نقلی دواؤں کا سیکٹر۔ دنیا کے کسی بھی مہذب دیش میں نقلی دواؤں کا چلن اتنا نہیں جتنا ہمارے دیش میں ہے۔ نقلی دواؤں سے لوگوں کی جانیں چلی جاتی ہیں۔ اسمیک، گانجا، کوکن، ہیروئن جیسی منشیات لینے سے موت نہیں ہوتی۔ موت تبھی ہوتی ہے جب چیز کا زیادہ مقدار میں استعمال ہو لیکن نقلی دوائیں جان لیوا ہیں۔ یہ نقلی دوائیں عام بیماریوں جیسے بیمار، درد، زخم سکھانے کی ہوتی ہیں۔ جراثیم کش دوائیں تک نقلی موجود ہیں۔ ایسے کیمسٹوں کی کمی نہیں ہے جو چند روپے کے لالچ میں مریض کو موت کے منہ میں جھونک دیتے ہیں۔ ان نقلی دواؤں کا عام طور پر غریب طبقہ زیادہ شکار ہوتا ہے۔ یہ گروہ اپنی دواؤں کو جھگی بستی اور نچلے اور کم پڑھے لکھے علاقوں میں بیچنے ہیں، لوگ دوا خریدتے وقت اس کی پیکنگ پر خاص توجہ نہیں دیتے۔ نہ ہی وہ دوا کی ایکسپائری ڈیٹ پر توجہ دیتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کم روپے کی دوائی کے بارے میں کیمسٹ سے زیادہ پوچھ تاچھ نہیں کرتے۔ اگر کرتے بھی ہیں تو گھر میں چلا رہے ڈاکٹری جیسے فرضی ڈاکٹر ان کی دوائیں بدل کر نقلی دوائیں لکھ دیتا ہے۔ نقلی دواؤں پر اصلی دوائی سے 40 فیصدی کا منافع ہوتا ہے۔افسران بتاتے ہیں کہ اگر کسی دوائی کا ایک پتہ40 روپے میں آتا ہے اور اس پر کیمسٹ کو10 روپے کا فائدہ ہوتا ہے تو وہی نقلی دوائی کا پتہ30 روپے میں ملتا ہے اور اس پر کیمسٹ کو 15 سے17 روپے مل جاتے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ نقلی دوائی بنانے کے لئے ایک چھوٹا سا کمرہ اور چھوٹی سی دو تین مشینوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوائی بنانے کا سامان بھی آسانی سے میسر ہوجاتا ہے۔ حال ہی میں2016 کی دوائیاں مارکیٹ میں دیکھی گئی ہیں۔ دہلی پولیس نے پچھلے برس نقلی دوا بیچنے والے اور ان کا ساتھ دینے والے کیمسٹ کو گرفتار کیا تھا۔ نقلی دوا بنانے والے جھولا چھاپ ڈاکٹر ایسی دواؤں کی پرچی دینے والے اور نقلی دوا بیچنے والے کیمسٹوں سے ان کی ملی بھگت ہوتی ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ آپ اچھے ڈاکٹر کو دکھائیں اور بھروسے مند کیمسٹ سے دوا خریدیں۔ کیمسٹ ان نقلی دواؤں سے اتنا پریشان ہیں تو کچھ پتتے کے پیچھے اپنی دوکان کی اسٹیکر بھی لگا دیتے ہیں۔کچھ نقلی دوا بنانے والے مریض بن کر دوا واپس کرنے کے چکرمیں ان نقلی دواؤں کو کیمسٹوں کو دے جاتے ہیں۔ یہ سماج دشمن عناصر لوگوں کی جان سے کھیل رہے ہیں۔ دکھ کی بات یہ بھی ہے کہ سرکار نہ تو اس طرف توجہ دیتی ہے اور نہ ہی اس کے پاس ایسا کوئی انتظام ہے کہ بازار میں ان نقلی دواؤں کو پکڑا جائے اور قصورواروں کو سخت سزا دی جائے۔ ہم راجدھانی میں مرکزی وزیر صحت اور دہلی حکومت کے وزیر صحت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس نقلی مال کو روکنے کی سنجیدہ کوشش کرے۔ جیسا میں نے کہا کہ دنیا کے کسی ملک میں شاید ہی ایسی نقلی دواؤں کا گورکھ دھندہ چلتا ہو۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟