اور اب شانتاکمار کا لیٹر بم

للت مودی معاملے اور ویاپم گھوٹالے پر اپوزیشن کے زبردست حملوں سے مقابلہ آرا مودی حکومت کی مشکلیں انہی کی پارٹی بھاجپا کے سینئر ایم پی نے اور بڑھا دی ہیں۔اسے بھاجپا میں پھوٹ کا پہلا بلبلا مانا جاسکتا ہے۔ 80 سالہ شانتا کمار نے پارٹی صدر امت شاہ کو خط لکھ کر ویاپم جیسے کرپشن کے معاملوں سے نمٹنے کیلئے پارٹی میں لوکپال کی مانگ کی ہے۔ انہوں نے دو ٹوک کہا کہ اس طرح کے معاملوں سے ہم سب کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ ہماچل پردیش سے بھاجپا کے بزرگ لیڈر نے کچھ ریاستوں پر الزام لگاتے ہوئے راجستھان کی وزیر اعلی وسندھرا راجے و للت مودی تنازعہ اور مہاراشٹر کی وزیر اعلی پنکجا منڈے پر لگے کرپشن کے الزامات کی طرف اشارہ کیا۔ ہماچل کے سابق وزیر اعلی نے ایک پالیسی کمیٹی کو لوکپال کی طرح کام کرنا چاہئے تاکہ وہ سرکار میں لیڈروں کے برتاؤ پر نظر رکھے۔ خط میں لکھے ہر ایک لفظ کو واجب قراردیتے ہوئے شانتا کمار نے کہا کہ ان کی پارٹی نے قابل فخر کارنامے انجام دئے ہیں۔ چناؤ میں بھاری کامیابی کے بعد ایک سال تک کامیابی سے سرکار چلی لیکن اب کچھ جگہوں پر داغ لگنے لگے ہیں۔ شانتا کمار نے اپنی پارٹی کے اس خط پر ناراضگی کے باوجود کہا کہ انہیں اٹھائے گئے کچھ اشوز پر کافی وزرا کی حمایت ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مبینہ طور سے کچھ لیڈروں پر کرپشن کے الزامات کے چلتے بھاجپا کی ساکھ خراب ہوئی ہے۔ پارلیمنٹ کے مانسون سیشن کی کارروائی شروع ہونے سے ٹھیک پہلے سامنے آئے شانتا کمار کے اس خط میں پارٹی اور سرکار دونوں میں ہلچل ہونا فطری ہے۔ کہا تو یہ بھی جارہا ہے کہ شانتا کمار ان سینئر لیڈروں میں سے ہیں جو نئے دور میں بھاجپا کے اندرخود کو نظرانداز ہوتا محسوس کررہے ہیں۔اب چونکہ بھاجپا کے بہت سے طاقتور لیڈر کرپشن یا غیراخلاقی برتاؤ کے الزامات سے گھرے ہوئے ہیں اور اس کے نتیجے میں پارٹی کے لئے سیاسی مشکلیں کھڑی ہوئی ہیں تو اس کے بیچ لیٹر بم کا دھماکہ کر شانتا کمار نے جوابی چال چلی ہے۔ ممکن ہے کہ ان باتوں و دلیلوں میں کچھ سچائی بھی ہو اس کے باوجود یہاں قابل غور موجودہ حالات ہیں جو شانتا کمار کو اپنی بھڑاس نکالنے کیلئے موزوں محسوس ہوئے۔ بھاجپا لیڈر شپ کیلئے غور کرنے لائق یہ ہے کہ یہ حالات حقیقی ہیں یا نہیں؟ شانتا کمار ہماچل پردیش کے وزیر اعلی اور واجپئی سرکار میں وزیر رہ چکے ہیں، فی الحال وہ صرف ایم پی ہیں۔ پارٹی سے بھارتیہ جن سنگھ کے زمانے سے جڑے ہوئے ہیں اس لئے یہ خط اگر ان کی ذاتی ناراضگی کا اظہار ہے تب بھی بھاجپا کے لئے مناسب ہوگا کہ اس میں لکھی باتوں پر وہ توجہ دے۔ خاص کر ان کی اس تجویز پر کہ پارٹی کے اندر لوکپال مقرر کیا جانا چاہئے، جو کرپشن کی شکایتوں کی جانچ کرے۔
خیال رہے کہ پچھلے پانچ برسوں میں دیش میں کرپشن کا اشو انتہائی اہم رہا ہے۔ اس کو نظرانداز کرنے کی کانگریس پارٹی بہت بھاری قیمت چکائی ہے۔ اس لئے بھاجپا کو اس سے سبق لیناچاہئے۔ وہی غلطیاں نہیں دوہرانی چاہئیں۔ سرکار کا ہنی مون پیریڈ پورا ہوچکا ہے اب پارٹی کے اندر ناراضگی کی آوازیں سامنے آنے لگی ہیں۔ بھاجپا لیڈر شپ کو ان کو سنجیدگی سے لینا چاہئے نہ کہ یہ کہہ کر ٹال دیا جائے کہ یہ تو اپنے ذاتی وجوہات سے پارٹی پر الزام لگا رہے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟