بی آر ٹی کوریڈور ختم کرنے کا دہلی حکومت کا صحیح فیصلہ

ہم عام آدمی پارٹی سرکار کے ذریعے مول چند سے امبیڈکر نگر تک بنے بس ریپٹ ٹرانزٹ(بی آر ٹی) کوریڈور کو ختم کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ یہ ہماری رائے میں ایک صحیح فیصلہ ہے۔ ایسا نہیں کہ بی آر ٹی کا سسٹم خراب ہے۔ دنیا کے کئی بڑے شہروں میں بی آر ٹی کوریڈور کامیاب ہوئے ہیں۔ خود نائب وزیر اعلی منیش سسودیہ بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ بی آر ٹی اور اس کی جیسی اسکیموں کا بنیادی مقصد تھا پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کا فروغ ہو اور اچھی ٹرانسپورٹ سہولت کیلئے ضروری ہے کہ الگ الگ طرح کے پبلک ٹرانسپورٹ کو ڈیولپ کیا جائے تاکہ کاروں پر انحصار کم ہو سکے۔ لیکن دہلی میں پرائیویٹ گاڑیوں کی بڑھتی تعداد اور سڑکوں کے تنگ ہونے کے سبب دہلی میں بی آر ٹی فیل ہوگئی ہے۔ شیلا سرکار نے دہلی میں 14 نئے بی آر ٹی کوریڈور بنانے کو منظوری دی تھی ان میں سے7 پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ (پی ڈبلیو ڈی) اور 7 ڈیمٹس کو بنانے تھے۔ اس کوریڈور کی بھاری مخالفت کے باوجود کانگریس سرکار نے قدم واپس کھینچ لئے تھے۔ 
بھاجپا توشروع سے ہی بی آر ٹی کوریڈور کی مخالفت کرتی رہی ہے۔ بی آر ٹی پر سڑک بیچ میں بنا ٹریک حادثوں کا سبب بن رہا ہے۔ ٹریک کے دونوں طرف بسیں اور دیگر گاڑیوں کے چلنے سے بس مسافروں کیلئے ٹریک تک پہنچنا مصیبت بھرا ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پر 13 لوگوں کی موت ہوچکی ہے۔ ٹریفک جام کے سبب امبیڈکر نگر سے چراغ دہلی تک کی دوری طے کرنے میں گاڑی چلانے والوں کو 40 منٹ سے زیادہ کا وقت لگ رہا ہے۔ اس کوریڈور کے نام پر کروڑوں روپے کا گھوٹالہ ہوا ہے۔ اس پر راجدھانی میں جتنی بحث ہوئی شاید ہی کسی اور کوریڈور کیلئے ہوئی ہو۔ بی آر ٹی سے ہاتھ کھینچ لیا جانا اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ اس کو لیکر شہر میں زبردست ناراضگی کا لاوہ پھوٹ چکا تھا۔ وہ صحیح تھا ۔سرکار کا اندازہ ہے کہ اس متنازعہ کوریڈور کو ہٹانے میں قریب35 کروڑ روپے خرچ ہوں گے جبکہ بنانے پر 150 کروڑ روپے کا خرچ آیا تھا۔ مقصد جو بھی رہا ہو لیکن تجرباتی حالت یہ تھی کہ اس کوریڈور کا فائدہ کم نقصان زیادہ ہورہا تھا۔ منیش جی نے کہا کہ وہ اس کا صحیح مطالع کرکے ہی آگے بڑھیں گے۔ ہم دہلی سرکار کے اس فیصلے کو صحیح مانتے ہیں۔ متبادل سسٹم پر توجہ دینی ہوگی تاکہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھ نہ ٹوٹے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟