دہلی پولیس اوردہلی حکومت میں ٹکراؤ

راجدھانی کے آنند پربت علاقے میں لڑکی مناکشی کے بے رحمانہ قتل کے بعد وزیر اعلی اروند کیجریوال اور دہلی کے پولیس کمشنر بھیم سین بسی کی سرخیوں میں چھائی ملاقات کے بعد سرکار اور دہلی پولیس میں خلیج مزید چوڑی ہوتی لگتی ہے۔اس کی تصدیق کرتا ہے بسی کا بیان اور کیجریوال کا ویڈیو۔ دہلی سکریٹریٹ میں پیر کوہوئی اس میٹنگ کے بعد بسی نے کہا کہ پولیس کسی دباؤ میں کام نہیں کرتی۔ وہیں وزیر اعلی کے مطابق دہلی پولیس بے جان ہوگئی ہے۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی ملاقات میں کیا ہوا اس کی مفصل جانکاری دہلی سرکار کے وزیر داخلہ ستیندر جین نے دی۔ میٹنگ میں موجود رہے جین نے بتایا جو اطلاع کیجریوال نے مانگی اسے پولیس کمشنر نے یہ کہتے ہوئے کہ’’ آپ میرے باس نہیں ہیں‘‘ کے انداز میں دینے سے انکار کردیا۔ پولیس کمشنر بسی نے مناکشی کے معاملے میں 5 لاکھ روپے کا معاوضہ دینے کے اشو پر بھی مناکشی جیسی دیگر 500 متاثرین کے رشتے داروں کو بھی معاوضہ دینے کی مانگ کر ڈالی۔ اس پر وزیر اعلی نے کہا کہ آپ اسے اپنے باس (پردھان منتری مودی) کو فہرست سونپیں اور ان سے معاوضہ دلوائیں۔ اس پر بسی نے کہا کہ ان معاملوں کے لئے ان کے پاس وقت نہیں ہے۔ جین کے مطابق وزیر اعلی نے یہ بھی پوچھا کہ بار بار دہلی کے صرف چنندہ پولیس افسران کو ہی ایس ایچ او کیوں بنایا جاتا ہے؟ کیجریوال نے اور بھی جانکاریاں مانگیں۔ خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کی شکایتوں کی فہرست اور شکایتوں پر کتنے مقدمے درج ہوئے ان معاملوں کی تفصیل بھی دی جائے جو درج نہیں کئے گئے اور جو درج کئے گئے ان کی تازہ پوزیشن کیا ہے؟ موبائل نمبر بیٹ کے ساتھ بیٹ کانسٹیبل کی فہرست ، ایس ایچ او نہ بننے والے انسپکٹروں کی فہرست۔ ادھر پولیس کمشنر نے بتایا کہ وزیر اعلی کے ذریعے دہلی پولیس کو ’’ٹھلا‘‘ کہنے کے اشو کو میٹنگ میں اٹھایاگیا تھا۔ اس طرح کے لفظ کا استعمال دہلی پولیس کے لئے زبردست بے عزتی کی بات ہے۔ بسی نے کہا ہم کسی شخص کے آگے نہیں جھکیں گے۔ اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ جس طرح شارے عام بیحد بے رحمانہ اور دلیری سے مناکشی کا قتل کیا گیا اس سے محفوظ دہلی کے دعوؤں پر سنگین سوال اٹھے ہیں۔ یہی نہیں دیش کی راجدھانی میں جس طرح مسلسل جرائم کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں وہ سبھی کیلئے تشویش کا باعث ہونا چاہئے۔ اگر پولیس کے طریقہ کار میں بہتری کو لیکر دہلی سرکار کے پاس بھی کچھ صلاح یا تجاویز ہیں تو انہیں کیجریوال کو پولیس کمشنر اور لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ سے شیئر کرنا چاہئے لیکن جس طرح عام آدمی پارٹی اور ان کی سرکار اس مسئلے کو سیاسی رنگ دینے اور اس کے ذریعے دہلی پولیس پر اپنا کنٹرول کرنے کی مانگ کو جائز ٹھہرانے میں لگی ہے اس سے حالات کو بہتر کرنے میں شاید کوئی مدد ملے۔ شری کیجریوال کا یہ بیان پوری طرح سیاسی لگتا ہے کہ اگر پی ایم کے پاس وقت نہیں ہے تو وہ پولیس کو انہیں سونپ دیں۔ کیا کیجریوال کو پتہ ہیں کہ دہلی پولیس کے کام کاج پر نظر رکھنے کیلئے مرکزی وزیر داخلہ اور داخلہ سکریٹری اور لیفٹیننٹ گورنر موجود ہیں؟ اگر عام آدمی پارٹی کے لفظوں میں فی الحال مودی کی پولیس ہے بھی تو اسے کیجریوال کی پولیس بنا دینا کوئی حل نہیں ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟