کیا سی بی آئی جانچ میں کھلیں گے بڑے گھوٹالے؟

سپریم کورٹ نے نوئیڈا کے چیف انجینئر رہے سرخیوں میں چھائے یادو سنگھ کی منقولہ غیر منقولہ املاک کی جانچ سی بی آئی کو سونپ دی ہے۔ اس حکم کے بعد یادو سنگھ ہی نہیں ، اس سے جڑے تمام لیڈروں اور افسروں کو بھی کٹہرے میں ا آنے کی امید ہے۔28 نومبر 2014 کو محکمہ انکم ٹیکس نے یادو سنگھ کے نوئیڈا، دہلی، غازی آباد سمیت کئی ٹھکانوں پر چھاپے مار کر کروڑوں کی نقدی اور زیور برآمد کئے تھے۔ ارب پتی چیف انجینئر کو ساتھ لیکر ہنگامہ ہوا تو 8 دسمبر2014 ء کو ریاستی حکومت نے یادو سنگھ کو معطل کردیا تھا۔ 10 دسمبر 2014 کو الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ میں جانچ سی بی آئی سے کرانے کیلئے مفاد عامہ کی عرضی دائر کی گئی تھی۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چور و جسٹس ایس این شکلا کی بنچ نے اسی عرضی پر جمعرات کے روز فیصلہ سناتے ہوئے معاملے کی سی بی آئی سے جانچ کرانے کے احکامات دئے ہیں۔ یوپی کے دھن کبیر یادو سنگھ کی کالی کمائی کا راز جاننے کے لئے سی بی آئی کو پچھلے 10 سالوں کے دوران نوئیڈا اور گریٹر نوئیڈا میں زمین الاٹمنٹ میں ہوئی دھاندلیوں کی بھی جانچ کرنی پڑے گی۔ نوئیڈا فارم ہاؤس گھوٹالہ بھی اس کی ایک اہم کھڑی ثابت ہوسکتی ہے جس میں کئی پارٹیوں کے بڑے لیڈروں سے لیکر آئی اے ایس اور آئی پی ایس افسروں اور بڑے صنعتکاروں کو بیش قیمتی زمینی کوڑیوں کے بھاؤ میں بیچ دی گئیں۔ یادو سنگھ کے بارے میں بحث چل رہی ہے کہ وہ بلڈروں کو زمین دینے کے بدلے ایک لاکھ روپے فی مربع میٹر کی شرح سے کمیشن لیتا تھا اس کے بوتے اس نے 20 ہزار کروڑ سے زیادہ کی اسٹیٹ کھڑی کرلی تھی، ایسا مانا جاتا ہے کہ یادو سنگھ کے خلاف بھی سی بی آئی جانچ کے احکامات سے اتھارٹی کے حکام اور ملازمین میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ خاص طور سے ان افسران اور ملازمین میں جو سال2002 سے 2014 کے درمیان یادو سنگھ کے قریبی رہے۔ کرپشن اور کالی کمائی کے الزامات سے گھرے یادو سنگھ کا تنازعات سے گہرا رشتہ رہا ہے۔ بسپا سرکار میں پاور فل رہے یادو سنگھ کا پرموشن سے لیکر ٹھیکوں میں سیدھی مداخلت رہی تھی۔ سپا سرکار آتے ہی ان کے خلاف منمانے طریقے سے ٹھیکے دینے کو لیکر کوتوالی سیکٹر39 میں 954 کروڑ روپے کی دھوکہ دھڑی کی رپورٹ درج ہوئی ہے۔ چھاپے سے پہلے محکمہ انکم ٹیکس کو خود امید نہیں تھی کہ اس کے ہاتھ اتنی بڑی نقدی کیسے لگ سکتی ہے۔ معاملہ سی بی ڈی ٹی کے ذریعے سپریم کورٹ کی ایس آئی ٹی تک پہنچا اور سی بی آئی جانچ کی امید جاگی، لیکن ریاستی حکومت نے اس کی پر زور مخالفت کرتے ہوئے جوڈیشیل انکوائی بٹھا دی۔ اس درمیان یادو سنگھ نے کئی بار راجدھانی آکر اپنے سیاسی آقاؤں سے بھی مدد مانگی، نتیجتاً 8 مہینے تک اسے راحت ملتی رہی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟