بربریت کی نئی حدیں ہی طے ہورہی ہیں

آنند پربت علاقے میں شارے عام ایک لڑکی مناکشی کو جس بے رحمی سے قتل کردیا گیا اس سے جہاں دہلی میں لا اینڈ آرڈر پر سوالیہ نشان تو لگتا ہی ہے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی سوال اٹھتا ہے کہ ملزمان کو کسی سے ڈر نہیں لگتا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ دہلی میں بدمعاشوں کے حوصلے بلند ہیں اور انہیں اب کسی کا بھی ڈر نہیں رہا۔ آنند پربت کی واردات کو جس طریقے سے انجام دیاگیا وہ ملزمان کی بربریت کی ایک اور مثال ہے۔مناکشی عرف الکا کے رشتے داروں نے 10 اکتوبر 2013 ء کو آنند پربت تھانے میں ایس ایچ او اور 15 اکتوبر 2013 ء کو سینٹرل ڈسٹرکٹ ڈپٹی کمشنر کو ایک تحریری شکایت میں صاف لکھا ہے کہ اس کے پڑوس میں رہنے والے جوگی کی بیوی ششی بالا اور اس کے بیٹے ایلواور سنی ان کی بیٹی الکا کے ساتھ گالی گلوچ کرتے ہیں، تیزاب پھینکنے کی دھمکی دیتے ہیں، ان کے ساتھ مار پیٹ بھی کی گئی، الکا کا خاندان امن پسند ہے۔ پڑوس میں رہنے والے ان جرائم پیشہ ذہنیت کے ان لوگوں کے گھر بدمعاشوں اور غنڈوں کا آناجانا ہے۔اس کے بعد پولیس نے دونوں ملزمان بھائیوں کے خلاف چھیڑ خانی کا معاملہ درج کرلیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دونوں ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ پولیس اور لوگوں نے بتایاکہ جب مناکشی شام کو بازار سے لوٹ رہی تھی تو ایلو اور سنی نے بڑی بے رحمی سے مناکشی کے چہرے ، سینے اور پیٹ میں چاقوؤں سے تابڑ توڑ قریب 35 بار حملہ کیا۔ بتایا جاتا ہے دونوں ملزم بھائیوں نے بازار گئی مناکشی کا پیچھا کیا۔ 
بچنے کے لئے مناکشی ایک عمارت کی بالکنی میں آگئی لیکن دونوں لڑکوں نے اسے وہاں دبوچ لیا اور اس پر چاقوسے تب تک حملے کئے جب تک وہ بے ہوش نہیں ہوگی۔ مناکشی کو بچانے آئی اس کی ماں کو بھی نہیں بخشا گیا اور اس پر بھی حملے کئے گئے۔ یہ واردات بگڑتے قانون و نظم کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کے گرتے معیار کی بھی جیتی جاگتی مثال ہے۔ ایک ماں اپنے بچوں کو اچھی عادتیں سکھاتی ہے لیکن جب ماں ہی کسی غلط کام میں اپنے بچوں کے ساتھ شامل ہو تو سمجھا جاسکتا ہے کہ سماجی نظام کا تانا بانا کس طرح سے بکھر گیا ہے۔ حیرانی اور دکھ کی بات یہ بھی ہے کہ دہلی والوں میں اتنی انسانیت نہیں بچی کہ وہ ایک لڑکی کا اس طرح سے بربریت آمیز قتل ہوتے دیکھتے رہے لیکن بچانے کے لئے ایک بھی شخص آگے نہیں آیا۔ یہی تو وجہ ہے کہ جرائم پیشہ کھلے عام جرائم کرتے ہیں اور صاف نکل جاتے ہیں کوئی انہیں روکنے والا نہیں۔ پولیس ہر وقت واردات کی جگہ نہیں ہوسکتی۔ کچھ تو سہارا جنتا کو بھی دینا پڑے گا۔ ویسے چونکانے والی حقیقت یہ بھی ہے کہ اب ان جرائم پیشہ کو پولیس کا ڈر نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے کچھ دنوں میں پولیس والوں کو بھی بدمعاشوں نے نشانہ بنایا۔ جہاں پولیس کا خوف پھر سے پیدا کرنا ہوگا وہیں ہماری عدالتوں کو ان جرائم پیشہ افراد سے سخت برتاؤ کرنا چاہئے۔ پولیس گرفتار کرلیتی ہے اور عدالتیں انہیں آسانی سے ضمانت دے دیتی ہیں تاکہ وہ پھر سے جرائم کریں ۔ سارا کا سارا ڈھانچہ ہی بگڑا ہوا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ دہلی کو محفوظ کیسے بنائیں؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟