پارلیمنٹ میں بحث سے کیوں بھاگ رہی ہے کانگریس
جیسا کہ اندیشہ تھا منگل کے روز پارلیمنٹ کا مانسون سیشن ہنگامے کے ساتھ شروع ہوا۔ عوام سے وابستہ تمام اہم بل لگتا ہے کانگریس کہ منفی رویئے کے چلتے پاس نہ ہو پائیں گے۔ یہی نہیں آل پارٹی میٹنگ میں بنی مانسون سیشن کو ٹھیک ٹھاک چلانے کے تمام امکانات کو ختم کرتے ہوئے کانگریس نے اپنا یرغمال کا انداز ظاہرکردیا ہے۔اپنے منفی اور اڑیل رویئے سے پارلیمنٹ کے دو سیشن کے قیمتی وقت بلی چڑھ چکا ہے۔ کانگریس جہاں مانسون سیشن کو بھی نہ چلنے دینے پر اڑی ہے وہیں اس کی کچھ حمایتی پارٹیاں اس کے اڑیل رویئے سے پریشان ہیں۔ دبے الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ سیشن چلنے دو۔ حکمراں پارٹی بھی یہی کہہ رہی ہے کہ سشما سوراج ، وسندھرا اشو پر وہ بحث کے لئے تیار ہے لیکن کانگریس اس بات پر اڑی ہوئی ہے کہ پہلے ان کے استعفے ہونے چاہئیں پھر بحث ہوگی۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر کانگریس بحث کرنے سے کیوں کترا رہی ہے؟ اگر بحث ہوگی تو بھی وہ اپنی بات رکھ سکتے ہیں اور تمام حقائق پیش کر الزام ثابت کرسکتے ہیں۔ محض الزام لگانا ایک بات ہے اور اسے ثابت کرنا دوسری بات ہے۔ محض الزامات پر استعفیٰ لینا انصاف پر مبنی نہیں مانا جاسکتا۔ کانگریس کے اس منفی رویئے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ بھاجپا نے بھی کانگریس کے کچھ وزرائے اعلی پر کرپشن کے الزام لگا کر ان کے استعفے کی مانگ کر ڈالی۔ اترا کھنڈ، آسام، گوا وغیرہ ریاستوں کے وزرائے اعلی کو بھاجپا نے بھی زد میں لے لیا ہے۔ پارلیمنٹ کی ایک منٹ کی کارروائی پر 2 کروڑ روپے سے زیادہ خرچ ہوتا ہے اس حساب سے پورے دن میں تقریباً جنتا کی گاڑھی کمائی کے 12 کروڑ روپے برباد ہورہے ہیں۔ جنتا نے ان ممبران کو اپنے مسائل رکھنے کیلئے چنا ہے نہ کہ پارلیمنٹ کو سیاسی اکھاڑا بنانے کیلئے۔ یہاں ممبران پارلیمنٹ جہاں ٹی وی کیمرہ دیکھتے ہیں ہنگامہ کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ہم سبھی کو ایک صلاح دینا چاہتے ہیں کہ سرکار کے چینلوں دور درشن، لوک سبھا ٹی وی، راجیہ سبھا ٹی وی، کسان چینل پران ممبران پارلیمنٹ کی ہر اشو پر بحث کرا لیجئے اور ان میں وہ اپنی اپنی بات رکھیں اور پارلیمنٹ کواصل مقصد کے لئے چلائیں۔ جنتا سے جڑے اشوز کو اٹھایا جائے اور ان پر بحث ہو۔ یہ ٹھیک ہے کہ پارلیمنٹ کو ٹھیک طور سے چلانے کی ذمہ داری حکمراں فریق کی ہوتی ہے لیکن اپوزیشن کے اڑیل رویئے کے سبب پارلیمنٹ ٹھپ ہے۔ ہم حکمراں فریق سے بھی درخواست کرنا چاہتے ہیں کہ وہ بھی ہر اشو پر اپنا اڑیل رویہ نہ اپنائے۔ اپوزیشن کی جائز مانگ کو تسلیم کرے۔ حکومت ایوان کے اندر اور باہر بار بار یہ بات دوہراتی رہی ہے کہ سبھی اشوز پر وہ بحث کے لئے تیار ہے اور راجیہ سبھا میں اپنے نمبروں کی طاقت کا بیجا استعمال کرتے ہوئے اپوزیشن نے ٹھان لی ہے کارروائی ٹھیک طور سے تب تک نہیں چلنے دی جائے گی جب تک بھاجپا نیتاؤں کے استعفے نہیں ہوتے۔ راجیہ سبھا میں جب کانگریس کے نیتاؤں نے جارحانہ احتجاج کی کارروائی شروع کی تو اس وقت بھی لیڈر آف دی ہاؤس نے ڈپٹی چیئرمین سے فوری بحث شروع کرانے کی اپیل کی۔ لیکن کانگریس بحث سے بھاگتی رہی۔ اس سیشن میں عارضی بل جوینائل انصاف (بچوں کی دیکھ بھال اور تحفظ) بل2014 ، بے نامی لین دین (روک تھام) ، ترمیمی بل 2015، لوک پال اور لوک آیکت اور دیگر متعلقہ قانون (ترمیم بل) سمیت کئی اہم بل التوا میں ہیں۔ سرکار کے پارلیمانی انتظام کو اس تعطل کا کتنا سہرہ جائے گا یہ تو ہم کہہ نہیں سکتے لیکن یہ ضرور ہے کہ دیش کے ووٹروں کے ذریعے ٹھکرائی کانگریس پارلیمنٹ میں بھی الگ تھلگ پڑتی جارہی ہے۔ کیا ہم ’’نور ورک ،نو پے‘‘ اصول ان ممبران پارلیمنٹ پر بھی لاگو کردینا چاہئے؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں