رامپال کے ستلوک آشرم میں خونی جنگ!
ستلوک آشرم کے مکھیہ رامپال کا معاملہ تشدد کا موڑ لے چکا ہے۔ پنجاب ،ہریانہ ہائی کورٹ کے حکم پر جب منگلوار کو رامپال کے ہریانہ کے حصار کے بروالا میں واقع ستلوک آشرم پولیس پہنچی تو اسے رامپال کے پیروکاروں کی طرف سے زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے پولیس پر آشرم کمپلیکس سے جم کر پتھراؤ کیا تو پولیس کو اپنے دفاع میں ان پر لاٹھی چارج اور بعد میں آنسو گیس چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ پولیس کی مانیں تو آشرم کمپلیکس سے پولیس پر فائرننگ بھی کی گئی۔ گھنٹوں ستلوک آشرم کے باہر میدان جنگ جیسا منظر دکھائی دیا۔ اس خونی ٹکراؤ میں 200 سے زائد لوگ زخمی ہوگئے اور بھیڑ کے حملے میں 12 پولیس ملازم بھی زخمی ہوئے ہیں۔ حدتو اس وقت ہوگئی جب پولیس نے میڈیا والوں تک کو لاٹھی چارج میں نہیں بخشا اور انہیں دوڑا دوڑا کر پیٹا گیا۔ موصولہ اطلاع کے مطابق پولیس رامپال کو گرفتار کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ جے سی بی مشینوں سے آشرم کی دیوار توڑ کر اس میں پولیس کے جوان گھس گئے تو اس وقت پولیس حیران رہ گئی جب بابا کے پیروکاروں نے وہاں جمع بچوں اور عورتوں اور لڑکوں کو ڈھال کی شکل میں استعمال کرنا شروع کردیا۔ رامپال کے آشرم میں اس کی گرفتاری کولیکر سسپنس بنا ہوا ہے۔ آشرم کے ترجمان نے کہا کہ رامپال آشرم میں نہیں ہیں جبکہ ہریانہ کے ڈی جی پی ان کے اپنے آشرم میں ہی کسی جگہ چھپے ہونے کا دعوی کررہے ہیں۔ آشرم سے نکلنے والے لوگوں نے کہا کہ کافی لوگ باہر آنا چاہتے ہیں لیکن انہیں نکلنے نہیں دیا جارہا ہے بلکہ انہیں زبردستی ڈھال کے طورپر استعمال کیا جارہا ہے۔ پتہ چلا ہے کہ آج یعنی بدھوار کے روز آشرم میں پھنسے ہزاروں لوگوں نے کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر خود آشرم سے نکلنا شروع کردیا ہے۔رامپال کے آشرم میں موجود ترجمان نے دعوی کیا ہے آنسو گیس اور پولیس کی زیادتیوں کی وجہ سے9 لوگوں کی موت ہوگئی ہے جبکہ ڈی جی پی نے اس الزام کو مسترد کردیا ہے۔ سنت رامپال کے معاملے میں جو کہا جارہا ہے اس سے غلط پیغام جارہا ہے۔ یہ تلخ تبصرہ پنجاب ہریانہ ہائی کورٹ کے جسٹس جے پال اور جسٹس درشن سنگھ کی بنچ نے کورٹ کے بار بار حکم کے بعد بھی رامپال کو گرفتار کر عدالت پیش کرنے میں ناکام رہنے میں ہریانہ پولیس کی سخت سرزنش کی ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ پولیس رامپال کو گرفتار نہ کر کے جرائم پیشہ اور قانون توڑنے والوں کو غلط پیغام دے رہی ہے۔کل ہرحال میں ملزم خود کو قانون کے حوالے کرنے سے بچانے کیلئے اس طرح کے ہتھکنڈے اپنائے گا اس طرح تو انتظامی مشینری ہی فیل ہوجائیگی۔ ہائی کورٹ نے اگلی سماعت21 نومبر یعنی جمعہ کا دن مقرر کیا ہے اور پولیس کو سخت حکم دیا ہے کہ رامپال کو صبح10 بجے ہر حال میں پیش کرے۔ مذہب کی آڑ میں غلط کام کرنے والے ڈھونگی سنتوں کو چھوٹ نہیں دی جاسکتی۔ رامپال پر قتل کا الزام ہے۔ سال 2006ء میں رامپال حمایتی اور ایک دوسرے گروپ میں ہوئے جھگڑے میں ایک شخص کی موت ہوگئی تھی۔2008ء میں اس معاملے میں رامپال کو ضمانت مل گئی تھی۔14 جولائی2014ء کو رامپال کو کورٹ نے حصار کورٹ میں ویڈیو کانفرسنگ کے ذریعے پیش ہونے کو کہا تھا۔ رامپال کے حمایتیوں نے تب بھی اس کی مخالفت کی تھی اور حصار عدالت کا گھیراؤ کرلیا تھا۔ عدالت کمپلیکس میں توڑ پھوڑ بھی کی گئی تھی۔ اس کے بعد حصار ضلع بار ایسوسی ایشن نے معاملے کی شکایت ہائی کورٹ میں کی تھی اور عدالت ہذا نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے توہین عدالت کے تحت مقدمے کی سماعتکے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔وسیع عریض کمپلیکس میں پھیلے ستلوک آشرم کی 50 فٹ اونچی چار دیواری بنی ہوئی ہے۔ اس قلعہ نما کمپلیکس میں باہر سے داخلہ بہت مشکل ہے۔ رامپال کے حمایتیوں کا کہنا ہے کہ ان کے سنت (بھگوان) کو زبردستی مقدمے میں پھنسایا جارہا ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو بھی ان کے حمایتیوں کو اس طرح سے تشدد پر نہیں اترنا چاہئے بلکہ وہ اپنے قدم سے اپنے سنت کو ہی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اگر انہیں زبردست پھنسایا جارہاہے تو عدالت میں ہی انصاف مل جائے گا۔انہیں عدالت پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ پولیس نے ابھی بھی ضبط سے کام لیا ہے۔ اگر وہ اپنے ہتھکنڈوں پر اتر آئی تو بھاری مال و جان کا نقصان ہوگا۔ہریانہ کی کھٹر حکومت کی یہ سخت اگنی پریکشا ہے دیکھیں وہ اس مسئلے سے کیسے نمٹتے ہیں؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں