جونیئر انجینئرسے 100کروڑ کا مالک کیسے بن گیا رامپال؟

ہندوستان کے آئین میں شہریوں کو کسی بھی مذہب اور عقیدت کو ماننے کی آزادی ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عقیدت کے نام پر اس آئین کی دھجیاں اڑائی جائیں۔ خود کو سنت کہلوانے والے رامپال اوراس کے پیروکارو نے ہریانہ کے حصار میں واقع بروالا میں اپنے آشرم کے باہر جس طرح سے ہنگامہ مچوایا وہ ہندوستان کی تاریخ میں پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ ساڑھے33 گھنٹے کی سکیورٹی فورسز کی کارروائی کے بعدہریانہ پولیس جب ستلوک آشرم میں گھسی تو تلاشی کے دوران پولیس کومتنازعہ خواتین کا سامان بیت الخلاء میں خفیہ کیمرے اور نشیلی ادویا اور بے ہوشی کی حالت میں پہنچانے والی گیس اور فحاشی کتابیں بھاری تعداد میں برآمد ہوئیں۔ بدھوار کو آشرم سے باہر آنے والی عورتوں نے بھی چونکانے والی بہت سی باتیں بتائیں۔ ان کے مطابق رامپال کے پرائیویٹ کمانڈو انہیں یرغمال بنا کر ان سے بدفعلی کیا کرتے تھے اور ایسی جگہ رکھتے تھے کہ کسی آواز باہر نہیں پہنچ سکتی تھی۔ آشرم سے باہر آئی ایک عورت نے بتایا کہ وہ اپنے شوہر اور بچے کے ساتھ یہاں آئی تھی اور پچھلے7 دنوں سے وہ آشرم میں ہی موجود تھی اس نے کہا کچھ دنوں سے اس سے بدفعلی کی جارہی تھی۔ پانچ دنوں سے شوہر کے ساتھ اس کا کوئی رابطہ نہیں ہو رہا تھا۔ ہریانہ کے محکمہ باغبانی میں بطور جونیئر انجینئر نوکری کرنے والا رامپال 100 کروڑ کا مالک کیسے بن گیا؟رامپال کے پاس 100 کروڑ روپے کی املاک ہیں ۔16 ایکڑ میں پھیلے بروالا میں واقع آشرم کی قیمت تقریباً20 کروڑ روپے بتائی جاتی ہے۔ اس کے اندر عیش و آرام کی تمام سہولیات موجود ہیں۔ ہر کمرے میں ایئر کنڈیشن ہے۔ اس کے پاس تقریباً70 لکژری کاریں ہیں جس میں مرسڈیز ، بی ایم ڈبلیو، یو ایس وی اور آر سی وی وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ20 ٹریکٹر ،2 ٹرک قریب5 بسیں بھی ہیں۔ اس کے پاس بروالا میں ایک اور آشرم ہے جو قریب6 ایکڑ میں بن رہا ہے۔بروالا میں ہیں رامپال نے50 ایکڑ زمین اور خریدی ہے اس کی قیمت آج کے دور میں28 کروڑ روپے بتائی جاتی ہے۔ روہتک ضلع میں جھجھر روڈ پر واقع گاؤں کروندھا میں 4 ایکڑ کا ایک اور آشرم میں جس کی قیمت 5 کروڑ روپے ہے۔ مدھیہ پردیش، راجستھان، دہلی میں بھی رامپال کی کروڑوں کی زمین بتائی جاتی ہے۔ ستلوک آشرم رامپال کے25 لاکھ پیروکار ہونے کا دعوی کرتا ہے۔ رامپال سوٹ بوٹ میں رہ کر ست سنگ کرتا ہے۔ رامپال نے گرفتاری سے بچنے کیلئے اپنے پیروکاروں کو منصوبہ بند طریقے سے استعمال کیا۔ آشرم میں گھسنے کیلئے صرف ایک ہی بڑا دروازہ ہے اس لئے رامپال کے آشرم کے مین گیٹ کے باہر بزرگ اور لڑکوں اور عورتوں اور بچوں کو بہت ہی منظم طریقے سے ڈیوٹی لگائی ہوئی تھی تاکہ پولیس ملازمین بھی کسی طرح اندر نہ آسکیں۔ آشرم کے گیٹ پر تقریباً200 عورتیں، مرد، بچوں کو لگایا گیا تھا۔ اس کے بعد 4-5 ہزار بھگت اور نجی کمانڈو آشرم کی 50 فٹ اونچی دیوار کے پیچھے تعینات تھے جو 8-10 گھنٹوں میں بدلتے رہتے تھے۔ رامپال کے پیروکاروں میں ریٹائرڈ فوجی، پولیس ملازم اندر بیٹھ کر پورے حالات پر نظر رکھے ہوئے تھے اور منصوبے کو انجام دینے میں لگے ہوئے تھے۔ آشرم کے سامنے دروازے پر سب سے پہلے بچوں کو بٹھایاگیا۔ ان کے پیچھے عورتیں اور لڑکیوں کو معمور کیا گیا تھا۔ ایسی عورتوں کو تعینات کیا گیا جن کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں، ان کے پیچھے بزرگ عورتیں اور مرد تھے ان سب کے پیچھے لڑکوں کی ایک ٹولی بیٹھی تھی جو آشرم کی دیوار سے لگی تھی۔ یہیں پر پیٹرول بم ،ڈیزل ،تیزاب کی تھیلیاں وغیرہ جمع تھیں جیسے ہی پولیس نے کارروائی شروع کی تو ان لوگوں نے پولیس پر پیٹرول بم پھینکے۔ پانچویں مرحلے میں آشرم کی چھت پر 4-5 ہزار لڑکوں کو تعینات کیا گیا تھا۔ ان میں بابا کے نجی کمانڈو بھی تھے یہ رائفل، بندوق، ریوالور، پیٹرول بم وغیرہ سے حملہ کرنے کے لئے معمور تھے۔ میرا خیال یہ ہے کہ اتنی تیاری کے ساتھ رامپال نے اپنے آشرم میں انتظام کیا تھا پولیس اگر زور زبردستی کرتی تو سینکڑوں لوگ مر سکتے تھے۔ پولیس انتظامیہ نے بہت ہی ضبط سے کام لیا اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ100 سے اوپر پولیس ملازم اس 33 گھنٹے کی لڑائی میں زخمی ہوئے اور 4 لوگ مرے بھی ،وہ آشرم کے اندر ہی مرے۔رامپال سونی پت ضلع کے دھنونا گاؤں میں 8 ستمبر 1951ء کو بھگت نند رام کے گھر میں پیدا ہوا۔انجینئرنگ میں ڈپلومہ کیا اور محکمہ باغبانی میں ایک جونیئر انجینئر کی نوکری کی۔ نوکری کے دوران دبنگئی کی وجہ سے انہیں نوکری سے برخاست کردیا گیا۔رامپال جب کبیر پنتھ کے رامدیو آنند مہاراج کی قربت میں آیا تو اس کی زندگی کی سمت کی بدل گئی۔ اس نے 1999ء میں کروندھا میں ستلوک آشرم بنایا۔ 2006ء میں سوامی دیانند سرسوتی کی ستیارتھ پرکاش پر متنازعہ رائے زنی کر سنت رامپال سرخیوں میں آگیا۔ آریہ سماجیوں میں اور رامپال حمایتیوں میں خونی جھڑپ میں ایک شخص کی موت ہوگئی۔ اس کے بعد ایچ ڈی ایم نے 13 جولائی 2006ء میں اس کے آشرم کو قبضے میں لیکر رامپال سمیت 24 حمایتیوں کو گرفتار کرلیا۔ ڈیڑھ سال جیل میں رہے رامپال ضمانت پر چھوٹا۔ 13 جولائی کو ایک بار پھر رامپال اور آریہ سماج کے ماننے والوں میں جھڑپ ہوگئی جس میں تین لوگوں کی موت ہوئی۔ اس کے بعد ایک بار پھر پولیس نے آشرم پر قبضہ جمایا۔ رامپال اور ستلوک آشرم کے منتظمین کے خلاف پولیس نے بغاوت دیگر الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا۔ان کے علاوہ دفعہ(121) جنگ چھیڑنے کی کوشش، دفعہ21(a) یعنی سرکار کے خلاف مجرمانہ سازش، دفعہ122 (بھارت سرکار کے خلاف جنگ چھیڑنے کے ارادے سے ہتھیار جمع کرنے) جیسی دفعات کے تحت مقدمے درج ہیں۔ رامپال جیسے نام نہاد سنتوں کا نہ تو کوئی دھرم ہوتا ہے اور نہ روحانیت اور نہ ہی اخلاق سے کوئی تعلق ہے۔ انہوں نے اپنے آشرموں کو بدفعلی کا اڈہ بنا دیا ہے۔ لیکن غور کرنے کی بات یہ بھی ہے کہ جونیئرانجینئر سے سنت رامپال بننے کے سفر میں اسے کتنی سیاسی سرپرستی ملی ہے۔ بغیر سیاسی سرپرستی سے ان داغدار جرائم پیشہ شخص اتنی دور تک نہیں پہنچ پاتے۔ اب جب بابا گرفت میں آچکے ہیں پنجاب ۔ہریانہ ہائی کورٹ نے ہریانہ پنجاب کے سارے ڈیروں کے بارے میں رپورٹ مانگی ہے۔ اگر جانچ صحیح طریقے سے ہوئی تو اور باباؤں کی بھی پول کھلے گی اور ان کا گورکھ دھندہ سامنے آسکتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!