مدرسوں میں جہادی تعلیم سے خفیہ ایجنسیوں کا انکار!

دیش کے زیادہ تر مدارس میں جہاد کی تعلیم نہیں دی جاتی، یہ کہنا ہے دیش کی خفیہ ایجنسیوں کا۔ وزارت داخلہ نے اپنی تمام سکیورٹی ایجنسیوں سے ملی رپورٹس کی بنیاد پر مدرسوں کو لیکر ایک اندرونی رپورٹ تیار کرائی ہے۔ اس کے مطابق ہندوستانی مدرسوں کا جہادی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے دارالعلوم دیوبند ،اہل حدیث ،جماعت اسلامی اور بریلوی مسلک کے تحت چل رہے مدارس سے کوئی جہادی سرگرمی نہیں ہوتی اور نہ ہی وہاں زیر تعلیم طلبا کو اس طرح کا کوئی سبق دیا جاتا ہے۔رپورٹ کے مطابق ان اداروں کے مدارس اپنی اسلامی روایات کے مطابق ہی درس دے رہے ہیں۔ حالانکہ سرکار بنگلہ دیش سے ملحق آسام اور مغربی بنگال ریاستوں کے سرحدی علاقوں میں چل رہے مدرسوں کو لیکر ضروری چوکس ہے۔ یہاں کافی مدرسے بنگلہ دیشی شہریوں کے اشتراک سے چل رہے ہیں۔ یہاں کے کئی ٹیچر بھی بنگلہ دیشی ہیں۔ ان مدرسوں کے بارے میں الگ سے رپورٹ تیار ہورہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے بردوان دھماکے کے واقعہ میں ایک مدرسے کے استاد کو بھی مبینہ طور پر ملوث پایاگیا تھا اس کا تعلق بھی بنگلہ دیش سے بتایا گیا ہے۔ وزارت داخلہ کے ایک سینئر افسر نے بتایا ان کا محکمہ مدرسوں کے استادوں اور دیگر ملازمین سے تفتیش کررہا ہے جو دوسرے ملکوں کے ہیں خاص کر ایسے کئی مدرسے سرحدی علاقوں میں چل رہے ہیں جہاں غیرملکی استاد یا ملازم ہیں۔ ایسے مدرسے پاکستان کی سرحدوں پر بھی چل رہے ہیں۔ مدرسوں پر پچھلے سال سے نظر رکھی جارہی ہے۔ تمام خفیہ ایجنسیوں نے ایک ساتھ ان مدرسوں پر نظر رکھی ہوئی ہے۔ حالانکہ ابھی تک کسی مدرسے سے ایسی کوئی معلومات نہیں حاصل ہوئی جو کسی بھی طرح سے قابل اعتراض ہو۔ افسر کا کہنا ہے مغربی بنگال، یوپی ، بہار اور کیرل کے مدرسوں نے اپنا رجسٹریشن کرایا ہوا ہے۔ دیگر ریاستوں میں مدرسوں کاکوئی رجسٹریشن نہیں ہے۔ زیادہ تر مدرسوں میں اساتذہ مقامی لوگ ہیں ان میں سے کسی میں بھی قابل اعتراض حرکتیں یا باتیں سننے کو نہیں ملی ہیں۔ غور طلب ہے کہ آر ایس ایس سے وابستہ انجمنوں نے اس طرح کے الزام لگائے تھے کہ دیش میں چل رہے مدرسوں میں دہشت اور جہاد کی تعلیم دی جارہی ہے لیکن خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے وزارت داخلہ کو بھیجی رپورٹ میں اس الزام سے انکار کیا گیا ہے۔ہمیں ان پر بھروسہ کرنا ہوگا کیونکہ اس وقت وزارت داخلہ کے انچارج سرکردہ لیڈر راجناتھ سنگھ ہیں اور دیش میں نریندر مودی کی سرکار ہے حالانکہ خفیہ ایجنسیوں نے اس بات سے انکار نہیں کیا کہ کچھ مدرسوں میں غیرملکی ٹیچر نقلی شناختی کارڈ کی بنیاد پر کام کررہے ہیں۔ سرکار کے پاس جو اعدادو شمار ہیں اس کے مطابق بنگلہ دیش کی سرحد پر قریب 1700 مدرسے چل رہے ہیں۔یہ سبھی مدرسے مغربی بنگال ، آسام، تریپورہ اور میگھالیہ میں پڑتے ہیں اور یہ سبھی بین الاقوامی سرحد سے محض20 کلو میٹر کے دائرے میں واقع ہیں۔خیال کیا جاتا ہے کہ بیروز گاری کی وجہ سے اس طرح کے مدرسے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ ان مدرسوں میں بغیر کسی سلیبس یا پروگرام کی بنیاد پر تعلیم نہیں دی جاتی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟