جسٹس مدگل کمیٹی کے انکشاف سے کرکٹ دنیا میں مچی کھلبلی!

جمعہ کے روز سپریم کورٹ میں آئی پی ایل اسپارٹ فکسنگ معاملے کی جانچ کے لئے قائم جسٹس مدگل کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کردی ہے۔ اس کے جو نتیجے سامنے آئے ان سے صاف ہے کہ بی سی سی آئی کے متنازعہ چیئرمین این سرینواسن اور ان کے داماد گوروناتھ میپن راجستھان رائلس کے معاون مالک راج کندرا اور آئی پی ایل کے سی ای او سندر لکشمن اس گھوٹالے میں شامل ہیں۔ مدگل کمیٹی کی رپورٹ میں ان شخصیتوں کا نام آنا ظاہر کرتا ہے کہ مہذب کھیلے کہے جانے والے کرکٹ کے انتظام میں کیسا کیسا غیر اخلاقی گیم چل رہا ہے۔بڑی عدالت کی اگلی سماعت 24 نومبر کو ہے جس میں پورا امکان ہے کہ کرکٹ کو داغدار کرنے میں ملوث کچھ کھلاڑیوں کے نام بھی سامنے آجائیں۔ مدگل کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں ان کے مشتبہ رول کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور یہ انکشاف ہوتے ہی بورڈ نے بی سی سی آئی کے آئین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نہ صرف 20 نومبر کو ہونے والی میٹنگ بلکہ چناؤ بھی ٹال دئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس انکشاف سے ہندوستانی کرکٹ میں بڑا طوفان آنے والا ہے اور اس کھیل کے بھروسے اور مقبولیت پر الٹا اثر پڑے گا۔ کرکٹ کے وقار اور ناظرین کے بھروسے سے کھلواڑ کرنے والے ان غیر آئینی کھیل کا انکشاف ہونا چاہئے۔ دوسری طرف الزامات کے گھیرے میں آنے کے بعد این سرینواسن بورڈ پر اپنا قبضہ بنائے رکھنے کے لئے طرح طرح کے داؤ چل رہے ہیں اور ان کے اس کھیل میں بورڈ کے کچھ سینئر عہدیداران ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ بورڈ کا آئین کہتا ہے کہ 30 ستمبر سے پہلے اے جی ایم ہونا ضروری ہے۔ ورکنگ کمیٹی کی پچھلی میٹنگ میں جس میں این سرینواسن بھی شامل ہوئے تھے، اے جی ایم کی 20 نومبر کو یہ سوچ کر تاریخ رکھی گئی تھی کہ شاید ان کا اور ان کے داماد کا نام رپورٹ میں شامل نہ ہو۔لیکن نتیجہ الٹا آنے کے بعد سرینواسن خیمے کے طوطے اڑ گئے۔ معاملے کی اصلی سماعت24 نومبر کو ہونی ہے اس لئے ان لوگوں نے یکطرفہ طور پر اے جی ایم کو ٹال دیا ہے۔ کورٹ نے این سرینواسن کے چناؤ لڑنے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ اس لئے وہ چناؤ آگے بڑھا کر اپنے لئے یا اپنے کسی وفادار کیلئے راستہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کی ایک ٹھوس معاشی دلیل یہ ہے کہ کرکٹ اب کھیل سے زیادہ کاروبار بن چکا ہے اس سے ملک گیر رسوخ اور کروڑوں کی پراپرٹی حاصل ہونے لگی ہے۔ ایسے میں اسپاٹ فکسنگ نہ صرف ایک گھوٹالہ ہے بلکہ اس مقبول کھیل کی ساکھ اور بھروسہ بچانے کے سلسلے میں بھی دیکھا جانا چاہئے۔ یہ دیکھنا حیرت انگیز ہے کہ این سرینواسن نے شروع سے ہی اس معاملے پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ سرینواسن نے اپنی من چاہی جانچ کمیٹی بنا کر پورے معاملے پر لیپا پوتی کی ہے۔ بھلا ہو عدلیہ کا جس نے نہ صرف بی سی سی آئی کی جانچ کمیٹی کو غیر قانونی ٹھہرایا ہے بلکہ سپریم کورٹ نے جانچ کی ذمہ داری جسٹس مدگل کو سونپ کر پوری سچائی سامنے آنے کا کردار طے کردیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ سرینواسن سمیت جن شخصیتوں کے نام جانچ میں سامنے آئے ہیں ان پر کیا کارروائی ہوتی ہے۔ آئی پی ایل کے قاعدے قواعد میں یہ بات تھی کہ اگر کوئی ٹیم کا مالک مینجمنٹ سے جڑا شخص فکسنگ یا سٹے بازی میں ملوث پایا جاتا ہے تو اس ٹیم کو مقابلے سے باہر کردیا جائے۔ ضروری ہے کرکٹ کو بدنام کرنے والی سرگرمیوں میں ملوث منتظمان اور ٹیم مالکوں اور کھلاڑیوں پر بیحد سخت کارروائی ہو تاکہ مستقبل میں کوئی کرکٹ کی ساکھ سے کھلواڑ کرنے کی ہمت نہ کرسکے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟