کیبنٹ ردو بدل میں مودی کے ایک تیر سے کئی نشانے!

چناوی میدان بھلے ہی نیا ہو بھاجپا کی کامیابی کا معاملہ پرانا ہی ہوگا یعنی نریندر مودی کا چہرہ اور امت شاہ کی مائیکرو مینجمنٹ۔ ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش ہے۔ اس جوڑی کا کیبنٹ ردوبدل سے مطلب صاف ہے نشانے پر ہے ریاستوں کے اسمبلی چناؤ۔ کیبنٹ ردوبدل کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مدی اترپردیش ، بہار، پنجاب میں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے والے ہیں۔ انہوں نے صاف کردیا یوپی اسمبلی چناؤ میں بھلے ہی ابھی دو سال سے زائد کا وقت بچا ہے لیکن اس کے لئے ان کی حکمت عملی بن چکی ہے۔ وزیر اعظم نے اپنی پہلی ردو بدل میں جہاں یوپی کو اس کی سیاسی حیثیت کے حساب سے توجہ دی ہے وہیں ریاست کے سیاسی تجزیوں کا بھی خیال رکھا ہے۔ اب مودی کیبنٹ میں اترپردیش سے وزرا کی تعداد 13 تک جا پہنچی ہے۔ منوہر پریکر بطور کیبنٹ وزیر یوپی کے کوٹے سے لئے گئے ہیں۔وہ راجیہ سبھا کے ممبر بننے جارہے ہیں۔ گوتم بدھ نگر سے ڈاکٹر مہیش شرما (وزیر مملکت آزادانہ ذمہ داری) راجیہ سبھا کے ممبر اور پارٹی کے قومی نائب پردھان مختار عباس نقوی، آگرہ سے ایم پی اور پارٹی کے جنرل سکریٹری پروفیسر رام شنکر کٹھیریا اور فتحپور سے ایم پی سادھوی نرنجن جوتی سبھی وزیر بنائے گئے ہیں۔اب بات کرتے ہیں بہار کے بارے میں وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی کیبنٹ توسیع میں بہار کے تین چہروں کو جگہ دے کر ذات پات کی سیاست کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی ہے۔ اگلے سال بہار میں اسمبلی چناؤ ہونے ہیں ایسے میں ان چہروں کے انتخاب کے پیچھے کئی اسباب کے بارے میں بحث چھڑی ہوئی ہے۔گری راج سنگھ، رام کرپال یادو، راجیو پرتاپ روڑی یہ تینوں لیڈر ان تین برادریوں سے تعلق رکھتے ہیں جو بہار کی سیاست کو متاثر ہی نہیں بلکہ فیصلہ کن رول نبھاتی ہے۔گری راج سنگھ بھومی ہار، روڑی راجپوت، رام کرپال یادو اپنی برادری سے آتے ہیں۔ یہ تینوں ذاتیں بہار کی سیاست میں اہم مانی جاتی ہیں۔ لوک سبھا چناؤ میں بھاجپا کو اس سے کافی فائدہ ملا تھا اور امید کی جارہی ہے کہ اسمبلی میں بھاجپا کو مدد ملے گی۔ ویسے بھی بہار میں اگر مودی کے نام پر کوئی لیڈر سب سے زیادہ ابھرا ہے اور اس معاملے میں نتیش کمار پر حملہ کیاہے تو وہ گری راج سنگھ ہی ہیں لیکن ان کو جگہ تب ملی ہے جب نتیش کمار جیسے کٹر بھومی ہار برادری کے اندر وزیر کا عہدہ نہ ملنے کے سبب ناراضگی کو بھنانے کی کوشش کرتے دکھائی دئے۔ اسی طرح رام کرپال یادوکو دو اسباب سے وزیر کی کرسی ملی ہے ایک تو لالو کی بیٹی کو ہراکر پارلیمنٹ پہنچے ، دوسرا بھاجپا رام کرپال کے ذریعے سے اپوزیشن پارٹیوں کے ان لیڈروں کو پیغام دے رہی ہے جو مانتے رہے ہیں کہ بھاجپا میں جانے کے بعد وہ حاشیے پر چلے جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کبھی کانگریس کے سرکردہ لیڈر انہیں چودھری ویریندر سنگھ کو کیبنٹ توسیع میں جگہ ملی۔ ویریندر سنگھ کے سیاسی تجربے کو پارٹی پڑوسی ریاستوں میں بھنانے کا کام کرے گی۔ دہلی، اترپردیش کے چناؤ میں نئے مرکزی وزیر ویریندر سنگھ کو اہم ذمہ داری دے سکتی ہے۔ ہریانہ سے لگی ریاست دہلی کی ایک درجن سے زیادہ سیٹوں پر جاٹ ووٹر کافی تعداد میں ہیں۔ کانگریس کے چلتے ویریندر سنگھ دہلی اور اترپردیش دونوں ہی ریاستوں کے انچارج رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مغربی اترپردیش کے جاٹ ووٹروں کو لبھانے کا کام بھی مستقبل میں ویریندر سنگھ کے کندھوں پر ڈالا جائے گا۔ کیبنٹ میں شامل کر اس بات کے بھی اشارے دئے گئے ہیں کہ بھاجپا ہریانہ میں صرف غیر جاٹ برادری کی سیاست نہیں کرے گی۔ ہریانہ میں بھاجپا نے وزیر اعلی غیرجاٹ کو بنایا ہے تو مرکز میں وزیر ہریانہ کے قد آور جاٹ لیڈر کو بنا دیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی کیبنٹ توسیع میں ایک ایسا نام ہے جو نہ صرف حیران کررہا ہے بلکہ ایم پی بھی پہلی بار بنے ہیں۔ پنجاب کے ہوشیار پور سے پہلی بار ایم پی چنے گئے دلت لیڈر وجے سانپلا کو کیبنٹ میں شامل کرنے کے پیچھے پنجاب میں بھاجپا کی بنیاد کرنا ہوسکتا ہے۔ پنجاب میں شرومنی اکالی دل کے ساتھ سرکار چلا رہی بھاجپا اب یہاں بھی اکیلے چلنے کی راہ تلاشنے میں لگی ہے۔ کل ملاکر مودی کا چہرہ اور امت شاہ کی مائیکرو مینجمنٹ اس وقت پورے شباب پر ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟