آن لائن شاپنگ بکری 400 فیصد بڑھی، دوکانوں کا کاروبار45 فیصد گھٹا!

سجے ہوئے روایتی بازاروں کو آن لائن شاپنگ نے سخت ٹکر دینا شروع کردی ہے۔ ان دوکانوں کی طرح ہی آن لائن خوردہ کاروباریوں کے پاس ہر سامان دستیاب ہے۔ یہ کاروبار کتابوں سے شروع ہوا۔ یہ سلسلہ فرنیچر، کپڑوں اور گھریلو سامان سے لیکر پھل اور بیوٹی سازو سامان تک پہنچ گیا۔ یہ لسٹ ہردن بڑھتی جارہی ہے۔ ایک آن لائن شاپنگ سائٹ کا دعوی ہے اس کے ساتھ 50 ہزار گراہک جڑے ہوئے ہیں۔ اس خریداری کے دھندے میں گھسنا آسان ہے کیونکہ آپ اپنے بیڈ روم سے لیکر دفتر یا گاڑی کہیں سے بھی آرڈر دے سکتے ہیں اور سامان خود بخود آپ کے گھر پہنچ جائے گا۔ جانے کا بھی جھنجھٹ نہیں۔ اگر کسی وجہ سے آپ کا خریدہ آئٹم پسند نہیں تو وہ واپس بھی ہوسکتا ہے اور بدلا بھی جاسکتا ہے۔ حالیہ تہواری سیزن میں ریٹیل آن لائن کمپنیوں نے پچھلے برس قریب4 گنا سے زیادہ کاروبار کیا جبکہ عام دوکان اور خوردہ اسٹور میں کاروبار میں گراوٹ آئی ہے۔ تاجروں کا کاروبار45 فیصدی کم رہا۔ ٹریڈرس ایسوسی ایشن نے ای کامرس کمپنیوں کے لئے قاعدے اور شرائط ریگولیٹری اتھارٹی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ خوردہ سامان بیچنے والی کمپنیاں آن لائن شاپنگ کا متبادل گراہکوں کو دیکر کاروباری سطح پر برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہیں۔ صرف الیکٹرانک سامان کی بکری میں ہی گراوٹ درج کی گئی ہے۔ کنفیڈریشن آف آل انڈیا ٹریڈرس کے جنرل سکریٹری پروین کھنڈیلوال کا کہنا ہے آن لائن شاپنگ کمپنیوں کی وجہ سے تہواری سیزن میں ہمارا45 فیصدی کاروبار کم ہوا ہے۔ ہمارے لئے سبھی طرح کے 24 قاعدے قانون ہیں جبکہ ان کمپنیوں کے لئے کوئی قاعدہ نہیں ہے۔ ہم نے وزیر تجارت و صنعت نرملا سیتا رمن کو تین شکایتی خط لکھے ہیں اور ان سے ملے بھی ہیں۔ یہ کمپنیاں کیسے بھاری چھوٹ دیکر اور خسارہ برداشت کر کاروبار کررہی ہیں۔ یہ کمپنیاں بھاری چھوٹ اس لئے دے رہی ہیں کیونکہ یہ سیدھا کمپنیوں سے تھوک مال خریدتے ہیں اوران کو کسی سجا دھجا کی ضرورت نہیں۔ دیش کے 6 کروڑ ٹریڈرز 31 لاکھ کروڑ روپے یومیہ کا کاروبار اور30 کروڑ لوگوں کی روزی روٹی داؤ پر آگئی ہے۔ مسئلے کا حل نہیں ہوا تو ہم کنزیومر کمیشن اور سپریم کورٹ جائیں گے۔ ایسوسی ایشن کے سکریٹری جنرل ڈی ایس راوت نے بتایا کہ تہوار دسہرہ اور دیوالی کے درمیان اس برس400 فیصدی تک اپنے کاروبار کو بڑھایا۔ کمپنیوں نے قریب15 ہزار کروڑ روپے کی سیل کی ہے۔ مختلف ریسرچ کے مطابق حال میں دیش میں 4 بلین ڈالر یعنی24 ہزار400 کروڑکی یہ صنعت اگلے پانچ برس بعد 90 بلین ڈالر ہوجائے گی۔ریٹیلرز کی خوش قسمتی یہ ہے کہ ای کامرس یعنی آن لائن شاپنگ فی الحال بڑے شہروں تک محدود ہے۔ چھوٹے شہروں اور قصبوں میں انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے لیکن آنے والے برسوں میں یہ بھی کمی پوری ہوجائے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟